Salal Baloch,Human Right violation, Freedom, sindh, Balochistan , BSO, BSO Azad, BNM, Abdul Jabbar

Tuesday, May 26, 2020

خڑکمر واقعے کے آشکارا راز ایمل خٹک پاکستان کی سیاسی تاریخ بالعموم اور پشتونوں کی بالخصوص سیاسی واقعات سے بھری پڑی ہے

خڑکمر واقعے کے آشکارا راز 

ایمل خٹک 

پاکستان کی سیاسی تاریخ بالعموم اور پشتونوں کی بالخصوص سیاسی واقعات  سے بھری پڑی ہے ۔ جو عوامی حقوق اور حاکمیت کیلئے کی جانے والی انتھک جہدوجہد اور بیمثال قربانیوں کی لازوال داستانیں ھیں۔  خڑکمر شمالی وزیرستان کا واقعہ بھی بابڑہ کی واقعے کی طرح ایک ناقابل فراموش سیاسی سانحہ ہے ۔ گزشتہ سال 26 مئی کو واقع ھونے والے اس خونی اور سیاہ واقعے کے خلاف ایک ہی دن پاکستان کے علاوہ نارتھ امریکہ اور یورپ کے اھم شہروں میں احتجاجی مظاھرے ھوئے تھے۔ 

خڑکمر کا واقعہ کیا ہے ۔ جب شورش زدہ علاقے میں دہشت گرد کاروائی ھوتی ہے ۔ اس کے فورا بعد سیکورٹی فورسز سرچ آپریشن شروع کرتی ہے ۔ علاقے کو گھیرے میں لیا جاتا ہے غیراعلانیہ کرفیو نافذ کی جاتی ہے اور گھر گھر تلاشی لی جاتی ہے ۔ اور عملا ھر شہری کے ساتھ دھشتگردوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں عوام گوناگوں مشکلات اور مسائل سے دوچار  ھیں اور بیشمار شکایات کی انبار ہے ۔

عوامی مشکلات اور مسائل کو سمجھے کیلئے گزشتہ پیر کے روز عیدک شمالی وزیرستان میں سرکاری گاڑی  پر ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ کی مثال لیں۔ دھماکہ میں ایک فوجی ھلاک تین زخمی ھوتے ھیں۔ دھماکہ کے فورا بعد راہ چلتے راہگیروں اور گاڑیوں پر اندھادھند فائرنگ ھوتی ہے ۔ کوچ ڈرائیور موقع پر ھلاک اور مسافر زخمی ھوتے ھیں ۔ قریبی مدرسہ میں گھس کر مسجد کے اندر اعتکاف میں بیٹھے افراد پر فائرنگ سے ایک شہری ھلاک اور کئی زخمی ھوجاتے ھیں۔ سوشل میڈیا پر عینی شاھدین مثلا زخمیوں کے ویڈیوز اور آڈیوز موجود ھیں۔

خڑکمر شمالی وزیرستان کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ علاقہ ڈوگہ مچہ مداخیل کے رہائشیوں کو  سرچ آپریشن کے دوران غیرانسانی سلوک اور زیادتیوں کی شکایات تھی ۔ عوام نے سیکورٹی فورسز کی زیادتیوں کےخلاف 25 مئی 2019 کو دھرنا دیا۔ اگلے دن علاقے کا ایم این اے محسن داوڑ ایک اور ساتھی ایم این اے علی وزیر کے ھمراہ مظاھرین کی فریاد سننے اور دادرسی کی غرض سے ان کے پاس جانے کی کوشش کرتے ھیں ۔ پہلے تو انکو  آگے جانے نہیں دیتے ۔ جب وہ آگے بڑھ جاتے ھیں تو پھر قریبی چیک پوسٹ سے ایم این اے کے قافلے پر اندھادھند فائرنگ کی جاتی ہے۔

سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے چودہ افراد ھلاک اور چوبیس زخمی ھوئے۔ علی وزیر ایم این اے کو موقع پر گرفتار کیاجاتا ہے جبکہ محسن بعد میں۔ سرکار کا دعوی تھا کہ مظاھرین نے سیکورٹی فورسز پر حملہ کیا مگر حملے میں نہتے شہری تو مارے گئے مگر فورسز کا ایک بندہ زخمی تک نہیں ھوا۔ یادرہے کہ شمال وزیرستان میں عوام کے پاس اب اسلحہ نہیں ۔ فوجی آپریشن کے دوران عوام سے اسلحہ جمع کیا گیا ہے ۔

اس واقعے کے حوالے سے بہت سے سوالات جواب طلب ھیں ۔ دنیا بھر میں سیکوریٹی فورسز پر حملہ ایک سنگین جرم سمجھا جاتا ہے اور ایسے حملے کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں ملتی ھیں ۔ اس طرح اگر حملہ بیرونی سازش ھو یا اس میں بیرونی ھاتھ ملوث ھو تو اسے بے نقاب کیا جاتا ہے ۔ مگر بیرونی سازشیں بےبنیاد الزامات اور بھونڈے پروپیگنڈے سے نہیں ٹھوس حقائق سے بے نقاب ھوتی ہے ۔ پاکستانی عوام اور عوامی نمائیندے باربار اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ھیں اور اس سانحے کی برسی پر بھی یہ مطالبہ دوہرایا جارہا ہے ۔

اگر سیکورٹی فورسز پر حملے کی جھوٹی کہانی کو سچ مان بھی لیا جائے تو ریاست کے پاس تمام زرائع موجود ھیں اور پرزور عوامی مطالبہ بھی ہے کہ واقعے کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائے تو تحقیقات سے اجتناب کیوں ؟ سانحے میں ھلاک اور زخمی باغی شہریوں کیلئے معاوضے کا اعلان کیوں کیا گیا ؟ دو منتخب اراکین اسمبلی جو مظاھرین کی داد رسی کیلئے جاتے ھیں انھیں گرفتار کیا جاتا ہے جبکہ فائرنگ کرنے والے مظاھرین کا کیا بنا ؟ اتنے بڑے واقعے کی عدالتی کاروائی کس مرحلے پر ہے ؟ پشتون تحفظ مومینٹ کے علاوہ ملکی اور بین القوامی انسانی حقوق تنظیمیوں کی  واقعے کی آزادانہ اور غیرجانبدارنہ تحقیقات کے مطالبے کے باوجود اس سے گریز کیوں اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ھونے سے کون ڈر رہا ہے! ۔

ایسے واقعات کے حوالے سے تین ریاستی رویئے اھم ھیں ۔ ایک تو ان سانحات کی آزادانہ تحقیقات سے گریز کیاجاتا ہے اور الٹا ان واقعات اور حقائق کو دبانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے ۔ دوسرا ریاستی ادارے ان سانحات سے سبق سیکھنے اور عوامی مسائل اور مشکلات کو مذاکرات اور بات چیت کے زریعے حل کرنے اور ان کی مناسب دادرسی کی بجائے طاقت کی استعمال کو ترجیع دیتے ہے ۔ تیسرا عموما ایک بلنڈر یعنی  فاش غلطی کو چھپانے کیلئے کئی اور فاش غلطیاں کی جاتی ہے جس سے معاملات حل ھونے کی بجائے مزید سنگین اور عوامی غم وغصے میں اضافہ ھوجاتا ہے ۔

پشتون تحفظ مومینٹ کے ابھرنے کی ایک اھم وجہ شورش زدہ علاقوں میں دھشتگرد کاروائیوں کے بعد سیکورٹی فورسز کا عوام کے ساتھ غیر انسانی اور ھتک آمیز رویہ بھی تھا۔ اور سرچ آپریشن کے نام پر عوام کو بیجا تنگ کرنے اور سیکورٹی فورسز کی زیادتیوں کا خاتمہ پی ٹی ایم کا ایک اھم مطالبہ ہے ۔ اگر  پی ٹی ایم کو بزور دبانے کی بجائے اس کو سنجیدگی سے سنا جاتا اور اس کی مطالبات کی مناسب شنوائی ھوتی تو خڑکمر واقعے جیسے واقعات نہیں ھوتے۔ ھٹ دھرمی کی وجہ سے ریاست نہ تو عوامی مطالبات کو سننے کیلئے تیار ہے اور نہ اصلاح احوال کیلئے ۔

طاقت کے گھمنڈ اور نشے میں ریاستی ادارے شہریوں کے بنیادی حقوق اور مسلمہ اصول انصاف سے روگردانی یا قانون کو تو ھاتھ میں لے لیتے ھیں لیکن یہ بھول جاتے ھیں کہ عوام سنگین زیادتیاں اور بے انصافیاں بھولتے نہیں اور یہ ناخوشگوار واقعات قوموں کی اجتماعی شعور کا حصہ بن جاتی ہے اور مدتوں یاد رہتی ھیں ۔ انگریز سامراج نہیں رہا مگر قصہ خوانی کی شھدا ء کی یادیں تازہ ھیں ۔ سانحہ بابڑہ کے ذمہ دار کردار نہیں رہے مگر شھداء بابڑہ کا دن ھر سال منایا جاتا ہے ۔

No comments:

Post a Comment