Salal Baloch,Human Right violation, Freedom, sindh, Balochistan , BSO, BSO Azad, BNM, Abdul Jabbar

Monday, May 14, 2018

‎کیا مولانا عبدالکام آزاد ک اس تقریر کو پڑھ کر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ محمد علی جناح برطانوی ایجنٹ تھے اور اس نے پاکستان بنا کر برطانوی عزائم کی تکمیل میں برطانیہ کی مدد کی ،،،،،،،،،،،،،،، ؟؟

سوچئیے ذرہ

کیا مولانا عبدالکام آزاد ک اسسوچئیے ذرہ

کیا مولانا عبدالکام آزاد ک اس تقریر کو پڑھ کر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ محمد علی جناح برطانوی ایجنٹ تھے اور اس نے پاکستان بنا کر برطانوی عزائم کی تکمیل میں برطانیہ کی مدد کی ،،،،،،،،،،،،،،، ؟؟

مولانا عبدالکلام آزاد،،،،،،،، نوٹ
مولانا عبدالکلام آزاد کی شخصیت واُن کی سیاست کا ہر پہلو واضح کرنے کیلئے اس مضمون میں اُن کی ایک اہم تقریر کو شامل کیاجانا لازمی سمجھا گیا البتہ یہ تقریر بصری نوعیت سوچئیے ذرہ

کیا مولانا عبدالکام آزاد ک اس تقریر کو پڑھ کر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ محمد علی جناح برطانوی ایجنٹ تھے اور اس نے پاکستان بنا کر برطانوی عزائم کی تکمیل میں برطانیہ کی مدد کی ،،،،،،،،،،،،،،، ؟؟

مولانا عبدالکلام آزاد،،،،،،،، نوٹ
مولانا عبدالکلام آزاد کی شخصیت واُن کی سیاست کا ہر پہلو واضح کرنے کیلئے اس مضمون میں اُن کی ایک اہم تقریر کو شامل کیاجانا لازمی سمجھا گیا البتہ یہ تقریر بصری نوعیت میں حاصل ہوئی سالہاسال پرانی ریکارڈنگ کا حصہ تھی لہٰذا ٹرانسکپشن میں سطحی کمی بیشیوں کا پیشگی اعتراف کیاجانا مناسب سمجھا گیا۔
تقریر
’’دنیا میں وہی بچتا ہے کہ جس کی بنیادیں مضبوط ہوں ۔ میں آپ کو آئندہ نقشوں کے بننے سے نہیں روکتا لیکن آل انڈیا کانگریس کی صدارت کے ان دو برسوں میں جو کوششیں میں نے کیں اور مسلمان لیڈروں نے جس طرح اُنہیں ٹکرایا اُسکے بیان کرنے کا یہ موقع تو نہیں لیکن آپ کی یاد دہانی کیلئے مجھے پھر دہرانا پڑتا ہے کہ جب میں نے مسلم لیگ کی اس پاکستانی اسکیم کی تمام تر پہلوؤں پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پورے ہندوستان کیلئے اس اسکیم کے جو بھی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کیلئے بھی یہ تجویز سخت تباہ کن ثابت ہوگی ۔ اس سے اُن کی کوئی مشکل حل ہونے کے بجائے مزید مشکلیں پیدا ہوجائینگی ۔
اول تو پاکستان کا لفظ ہی میرے نزدیک اسلامی تصورات کے خلاف ہے ۔ پیغمبر اسلام ؐ کا ارشاد ہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے تمام روحِ زمین کو میرے لئے مسجد بنا دی ‘‘
میرے مطابق اس روحِ زمین کو یوں پاک اور نا پاک میں تقسیم کرنا ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔ دوسری یہ کہ یہ پاکستان کی اسکیم ایک طرح سے مسلمانوں کی شکست کی علامت ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 10 کروڑ کے اندر ہے اور وہ اپنی زبردست تعداد کے ساتھ ایسی مذہبی و معاشرتی صفات کے حامل ہیں کہ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگیوں و پالیسیوں اور نظم و نسق کے تمام معاملات پر فیصلہ کن اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ پاکستان کی اسکیم کے ذریعے ان کی یہ ساری قوت و صلاحیت تقسیم و ضائع ہو جائے گی اور میرے نزدیک یہ بد ترین بزدلی کا نشان ہے کہ میں اپنے میراثِ پدری سے دستبردار ہو کر ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر قناعت کر لوں ۔ میں اس مسئلے کے دوسرے تمام پہلوؤں کو نظر انداز کرکے تنہا مسلم مفاد کے نقطہ نگاہ سے بھی غور کرنے کیلئے تیار ہوں اور پاکستانی اسکیم کو کسی بھی طرح سے مسلمانوں کیلئے مفید ثابت کر دیا جائے تو میں اسے قبول کر لوں گا اورد وسرے سے اسے منوانے پر اپنا پورا زور صرف کر ڈالوں گا ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم سے مسلمانوں کی اجتماع و ملکی مفاد کو زرا بھی فائد ہ نہ ہوگا اور نہ اُن کا کوئی اندیشہ دور ہو سکے گا ۔ ہاں جو تجویز اور فارمولہ میں نے تیار کیا تھا کہ جسے کامرہ مشن اور کانگریس دونوں سے ہی منظور کروالینے میں مجھے کامیابی بھی حاصل ہوئی اور جسکی روح سے تمام صوبے مکمل طور پر خود مختار قرار دے دیئے گئے تھے کہ جس میں پاکستانی اسکیم کی وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اُن نقائص سے پاک ہیں جو اُن کی اسکیم میں پائے جاتے ہیں ۔ آپ اگر جذبات سے بالا تر ہو کر اسکے ممکنہ نتائج پر غور کریں تو ہندو اکثریتی علاقوں میں کروڑوں کی تعداد میں یہ مسلمان مگر چھوٹی چھوٹی اقلیتوں کی صورت میں پورے ملک میں بکھر کر رہ گئے اور آج کے مقابلے میں آنے والے کل میں اور بھی زیادہ کمزور ہو جائیں گے ۔ جہاں اُن کے گھر بار ، بد دو باش ایک ہزار سال سے چلی آ رہی ہے اور جہاں اُنہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے مشہور و بڑے بڑے مراکز تعمیر کئے ، ہندو اکثریتی علاقوں میں بسنے والے یہ مسلمان ایک دن اچانک صبح آنکھ کھولتے ہی اپنے آپ کو اپنے وطن میں پڑوسی اور اجنبی پائیں گے ۔ صنعتی ، تعلیمی و معاشی لحاظسے پسماندہ ہونگے اور ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر ہونگے جو خالص ہندو راج بنے گی ۔ پاکستان میں اگر خواہ مکمل مسلم اکثریتی حکومت ہی قائم کیوں نہ ہو جائے اس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہر گز حل نہیں ہو سکے گا ۔ یہ دو ریاستیں ایک دوسرے کے مد مقابل ایک دوسرے کی اقلیتوں کا مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتی ۔ اس سے صرف یرغمال و انتقام کا راستہ کھلے گا ۔
میرے بھائیوں آپکو یاد ہو گا کہ وسط جون 1940 ء میں کانگریس کی صدارت سنبھالنے کے بعد جب میں نے ہندو مسلم اختلاف کے تصفیے پر بحیثیت صدر کانگریس ، مسٹر محمد علی جناح (صدر مسلم لیگ ) کو ایک تجویز بھیجی تھی کہ ہندوستان کے تمام صوبوں اور مرکز میں کسی ایک پارٹی کی وزارت کے بجائے کانگریس و مسلم لیگ پر مشتمل مخلوط وزارتیں بنائی جائیں ، لیکن مسٹر جناح نے میری تجویز یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ’’تم کو کانگریس شنوائی کی طرح کانگریس کا صدر بنا یا ہے ، اس لئے میں تم سے کسی طرح کی گفتگو نہیں کرنا چاہتا ہوں ‘‘ ۔ اور یوں برابر کی سطح پر ہندو مسلم تصفیے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا ۔ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی پہلی حکومت جو 14 ارکان پر مشتمل ہوتی اور جس میں 7 مسلمان نمائندے ہوتے اور 7 غیر مسلم نمائندے کہ جن میں ہندو صرف 2 ہوتے ، اسلام و مسلمانوں کے کون سے اہم مفاد کے پیش نظر مسٹر جناح کیلئے قابل قبول نہیں تھے ؟ کیا اس طرح مسلمانوں کو ہندوستان کی پہلی حکومت میں ایک معقول حصہ نہیں مل رہا تھا ؟
میرے بھائیوں میں آپ کو اس بات کی روشنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ جب لارڈ ول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے آخری وائس رائے مقرر ہو کر آئے اور اُنہوں نے دھیرے دھیرے سردار پٹیل ، جوہر لال نہرو و گاندھی وغیرہ جیسے کانگریسی رہنماؤں کو تقسیم کا نظریہ قبول کر لینے پر آمادہ کر لیا اور بالآخر 3 جون 1947 ء کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دینے کی تجویز کا اعلان کر دیا گیا ۔ میرے بھائیوں ، یہ اعلان دراصل نہ تو ہندوستان کے مفاد میں تھا اور نہ مسلمانوں کے مفاد میں ! اس سے صرف بر طانوی مفاد کی حفاظت مقصود تھی ، اس لئے کہ ہندوستان کی تقسیم اور مسلمان اکثریت کے صوبوں کی الگریاست قائم کر دینے سے بر طانیہ کو بر صغیر میں اپنے پاؤں ٹکانے کا موقع حاصل ہو جاتا تھا ۔ ایک ایسی ریاست جس میں مسلم لیگ کے نام سے بر طانیہ کے پسندیدہ افراد بر سرے اقتدار آ جائینگے مسقل طور پر بر طانیہ کے زیر اثر رکھی جا سکتی تھی اور اس کا اثر ہندوستان کے رویے پر بھی پڑنا لازم ہو گا ،ہندوستان جب یہ دیکھے گا کہ پاکستان پر انگریزوں کا اثر ہے تو وہ اپنے یہاں بھی انگریزوں کے مفاد کا لحاظ رکھے گا ۔ آخر کار 14 اگست 1947 ء میں ہندوستان تقسیم کر لیا گیا ۔ پاکستان و ہندوستان نامی دو آزاد ریاستیں وجود میں آئیں جو یکساں طور پر بر طانیہ کا من و یلت کی ممبر بننے پر راضی ہوگی اور پھر میرے بد ترین خدشات صحیح ثابت ہونے لگے ۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کا بد ترین دشمن بن کر قتل عام ، غارت گری اور لوٹ مار پر اتر آیا ۔ خون کی لکیروں کیساتھ دو ملکوں کی سرحدیں کھینچ جانے لگی اور افسوس یہ مسلمان تقسیم در تقسیم ہو کر رہ گئے ۔
لیکن اب کیا ہو سکتا ہے ، اگر چہ ہندوستان نے آزادی حاصل کرلی لیکن اسکا اتحاد باقی نہیں رہا ، پاکستان کے نام سے جو نئی ریاست وجود میں آئی ہے کہ جس میں بر طانیہ کے پسندیدہ افراد کا بر سرے اقتدار طبقہ وہ ہے جو بر طانوی حکومت کا پروردہ رہا ہے ۔ اس کے طرز عمل میں خدمتِ خلق و قربانی کا کبھی کوئی شائبہ نہیں رہا ہے اور صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے یہ لوگ پبلک کے کاموں میں شریک ہوتے رہے ہیں اور پاکستان کے قیام کا صرف ایک ہی نتیجہ ملا ہے کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی پوزیشن کمزور ہو کر رہ گئی ہے اور یہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان تو کمزور ہو ہی گئے ہیں ۔ یہ ہندوستان میں رہ جانے والے کروڑوں مسلمان جو ابد تک ہندوؤں کے ظلم اور انتقام کا شکار رہیں پاکستان میں بسنے والے مسلمان ان کی کوئی بھی مددنہ کرسکے گئے اور اسی طرح سے پاکستان میں بسنے والے مسلمان جس معاشرتی کمزوری و اقتصادی و سیاسی پسماندگی کا شکار رہیں گئے ، یہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان اُن کی کوئی بھی مدد نہ کر سکیں گے ۔ تو کیا یہ بات غور کرنے کی نہیں کہ تقسیم کی بنیاد ہی ہندو و مسلمان کے درمیان عداوت پہ رکھی گئی تھی تو پاکستان کے قیام سے یہ منافقت اک آہنی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کا حل اب اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے اور اسی طرح یہ دونوں ملک خوف وہراس کے تحتاپنے اپنے فوجی اخراجات بڑھاتے رہنے پر مجبور رہیں گے اور معاشی ترقی سے محروم ہوتے چلے جائیں گے ۔
میں آج اگر ملامت کروں تو کس کو کروں ! کیسے کروں اور کیونکر کروں ! اپنے بھائیوں کو ! اپنے عزیزوں کو ! کس دیوار سے سر ٹکراؤں !
آپ جانتے ہیں کہ مجھے کون سی چیز یہاں لے آئی ہے ؟ میرے لئے یہ شاہجان کی یادگار مسجد میں پہلا اجتماع نہیں ہے ، میں نے ایک زمانے میں بہت سی گرد پیش دیکھی تھی اور یہی آ کر خطاب کیا تھا ۔ جب تمہارے جسموں پر ایک میلے پن کی جگہ اسلام تھا اور تمہارے دلوں میں شک کے بجائے اعتماد تھا ۔ پھر آج ! تمہارے چہروں پہ مسکراہٹ اور دلوں کی دیوالی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار خوشی اور چند برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں ۔ تمہیں یاد ہے کہ جب میں نے تمہیں پکارا تو تم نے میری زبان کاٹ ڈالی ، میں نے قلم اُٹھا یا تو تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیئے ، میں نے چلنا چاہا تو تم نے میرے پاؤں کاٹ دیئے ، میں نے کروٹ لینی چاہی اور تم نے میری کمر توڑ دی ۔‘‘
تبصرہ
حدیث نبوی ؐ کی روشنی میں پاکستان کے وجود کو اسلامی تعلیمات کے منافی و حتیٰ کہ اسے مسلمانوں کے خلاف کفر کی ایک سازش قرار دیتے اسکے وجود کے بر خلاف معقول دلائل پیش کرنے والے عالم دین و بر صغیر میں مسلمانوں کے حقیقی رہنما مولانا عبدالکلام آزاد 11 نومبر 1888 ء میں مکہ شریف میں پیدا ہوئے ۔آپ کی والدہ ماجدہ کا سلسلۂ نسب عرب قوم سے تھا جبکہ آپ کے والد محترم ایک ایسے صوفی مولانا کی حیثیت سے جانے جاتے کہ جنکا شجرہ نسب صوفی خاندان کے اُن علماء سے تھا جو مذہبی اقدار کی سخت پاسداری کیلئے جانے جاتے ، بنیادی حوالوں سے آپ کے اجداد کا تعلق ہیرات (افغانستان) سے تھا جو سالوں پہلے انڈیا آئے۔ اُن وقتوں مغل بادشاہوں کا دور دورا ہوا کرتا تھا، آپ کے والد شیخ محمد خیرالدین جو ایک مذہبی اسکالر تھے، وہ مکہ ہجرت کرگئے جہاں انہوں نے مدینہکے ایک مشہور مذہبی اسکالر کی بیٹی سے شادی کی ۔ مکہ شریف میں ہی اس خاندان میں اُس عظیم ہستی کی ولادت ہوئی کہ جنہیں تاریخ مولانا آزاد کے نام سے یاد کرتی ہے ۔آپ کی پیدائش کے چند سال بعد آپ کا خاندان دوبارہ انڈیا (کلکتہ) تشریف لایا۔
مولانا عبدالکلام آزاد ایک ایسے آئیڈیل مذہبی شخصیت ہیں کہ جن کے سبب ہم مذہب اسلام کی اُن خوبیوں کو اُجاگر کر سکتے ہیں کہ جنہیں عالمی طاقتوں کے سیاسی مفادات و تضادات کے باعث اس خطے میں عموماً ماند رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ ایک ایسا مثالی کردار جو مذہب اسلام کی تعریف کیلئے ایک شناختی علامت کے طور پر دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کی اچھائیاں بیان کرتے بحیثیت اک قوی ثبوت و موضوع بن سکتا ہو ، آپ کی علمی قابلیت کا یہ احوال تھا کہ آپ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے ہر علمی مورچے میں شامل رہے ۔ آپ نے سیاسی شعور کی بیداری کیلئے نہ صرف مختلف رسالوں کے اجراء کو اپنی بدولت ممکن بنا یا بلکہ ہندوستان میں موجود متعدد زبانوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ایک بڑے ہجوم کو ایک منظم دستے میں بدلنے کیلئے اُن کی زبانوں کو شعوری طور سے سیکھا ۔ آپ کو پشتو ، ہندکو ، بنگالی ، اردو ، فارسی ، عربی ، ہندی و انگریزی پر کمال حاصل تھا ۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں موجود مختلف فرقوں کے مابین رواداری کا درس دینے کیلئے آپ نے اسلامی تعلیمات کے ہر فرقے کی مصلحتوں کو سمجھنے کی خاطر اُن کا بھر پور مطالعہ کیا ۔ آپ کو فقہ ، شریعت و تاریخ اسلام پر عبور ہونے کیساتھ ساتھ جدید علوم پر بھی دسترس حاصل تھی ۔ آپ در حقیقت اسلام کے اُن سچے عالموں میں سے تھے کہ جنہوں نے علم کو بنا تعصب دیکھتے اُسے حاصل کرنے والے کو سیرت نبویؐ پر چلنے والا مجاہد تصور کیا اور اس فرسودہ بحث کو درکنار کیا کہ جس کے تحت علم کو مختلف مدارج میں تقسیم کرتے اسلامی و غیر اسلامی میں تقسیم کیا جاتا ہو کیونکہ آپ کے مطابق ہم اُسے علم کہہ ہی نہیں سکتے کہ جسے غیر اسلامی کہا جا سکتا ہو یا جسے حاصل کرنے پر خدا کی ممانعت ہو ۔ آپ نے ریاضی ، جو میٹری ، الجبرا ، فلسفہ و تاریخ کیساتھ ساتھ دیگر سائنسی علوم کو خدا کی نعمت تصور کرتے نہ صرف اپنی شخصیت کو مزید نکھارا بلکہ اُن کی بدولت ہی آپ نے متعدد علمی رسالوں کے اجراء کو ممکن بنا یا اور اپنی متعدد تصانیف سے اہل علم کو بھیفیض یاب کیا ، جس میں بیشتر کا مقصد بر صغیر پر بر طانوی قبضے کے خلاف عام عوام کو سیاسی شعور دینا تھا ۔ آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بعض ایسے مقالمے بھی تحریر کئے کہ جنہیں اسلامی ادبی تحریروں کا ایک قیمتی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے ۔
مولانا آزاد ہندوستان کی سیاست میں وہ رہنما تصور کئے جاتے ہیں کہ جنہوں نے علمی مورچوں کے علاوہ عملاً بھی ہر سیاسی تحریک میں بھر پور متحرک رہتے اپنا اہم کردار ادا کیا ۔ آپ خلافت تحریک ، گاندھی کے( ستھیے گرھا )، 1919 ء کی (رولٹ ایکٹ )کے خلاف کہ جس میں انفرادی آزادی کے بعض پہلوؤں پر قدغن کی شقیں موجود تھی، جلیا والا باغ کے قتل عام کے خلاف اجتماعی تحریکوں و بر طانیہ سرکار سے عدم تعاون تحریک اور دیگر سول نا فرمانی کی تحریکوں میں صف اول کے دستوں میں کھڑے رہنما تھے ۔ آپ کی جرأ ت و سیاسی بالادگی کو دیکھتے 1923 ء میں آپکو کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا ، جس کے تحت آپ کو کانگریس کا سب سے کم عمر صدر ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ آپ نے انتھک محنت و اپنی قابلیت سے ہندوستانی قوم کو تعلیم و سماجی اصلاح کا وہ تصور پیش کیا کہ جس کی بنیاد پر ہی آپکو ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کا قلمدان سونپا گیا ۔ آپ نے بحیثیت وزیر تعلیم ہندوستان بھر میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکول میں داخلے کی نہ صرف با قاعدہ مہم کا آغاز کیا بلکہ تعلیم کی اہمیت کو اجا گر کرتے بالغ لوگوں کیلئے بھی تعلیم کے مواقع پیدا کئے ۔ آپ نے اپنے طے کر دہ قومی پروگرام کے تحت بڑی تیزی سے اسکولوں و لائبریریوں کے قیام کا آغاز کیا ۔ آپ نے قومی سیاست میں وزیر اعظم نہرو کی سوشلسٹ اقتصادی و صنعتی ماڈل کی بھر پور حمایت بھی انسانی خدمت کے اس جذبے کیساتھ کی کہ جس کے تحت نہ صرف ابتدائی تعلیم کی عالمی سطح کر بڑھایا جانا ممکن ہوا بلکہ اس کے تحت معاشرے کے ہر فرد خصوصاً عورتوں کو بھی کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے ۔ قرونِ وسطی کی دقیانوسی خیالات کو بر طرف کرتے اسلام میں موجود انسانی برابری کی اصل احساس کو فلسفہ اسلام کا اہم ستون قرار دیتے آپ نے عورتوں کیلئے با عزت معاشی مواقع پیدا کرتے نہ صرف غربت پر قابو پانے کا راستہ تلاشا بلکہ اُنہیں بہتر سہولیات فراہم کرتے اُن کا حقیقی وقار اُنہیں دینے میں بھی آپ کا کلیدی کردار قابلِ ستائشہے ۔ سماجی و معاشی دشواریوں کو دور کرتے معاشرے کو علم و خرت کے رجحانات کی طرف مائل کرنے میں مولانا صاحب کے کردار کو نہ صرف ہندوستانی معاشرے میں پذیرائی ملی بلکہ دنیا بھر میں آپکی قابلیت کو عملاً تسلیم کیا گیا اور اسی عوض 1956 میں آپکو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو نیسکو )کہ جسکا مقصد تعلیم کے ذریعے مثبت معاشرتی و ثقافتی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنا تھا ۔ اس ادارے کا صدر منتخب کیا گیا ۔مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت و انکی جدوجہد پر اگر نظر رکھی جائے تو یہ کہنا قطعاً غلط نہیں کہ وہ ایک ایسے اسکالر و دانشور تھے کہ جنہوں نے نہ صرف اپنے عقیدے پہ نکتہ چینی کرنے والے لوگوں کو سائنسی و فلسفیانہ دلائل دیتے لا جواب کر دینے کی سکت تھی بلکہ وہ ایسے سیاسی مفکر بھی تھے کہ جنہیں اپنے حاصل کر دہ بیش قیمتی علم کے تحت مستقبل میں رونما ہونے والے حالات کا قبل از ادراک ہوتا ۔ پاکستان کے قیام و ہندوستان کی آزادی کے دوران اُن کے مختلف مقالموں ، انٹرویوز و تقاریر کا اگر مطالعہ کرتے آج پاکستان کا بحیثیت ایک اسلامی ریاست جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ مولانا کا وہ اندیشہ کہ جسکے تحت پاکستان کا قیام کفر کی سازش تھی اپنی قلعی کھولتے ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے ۔ اُنہوں نے اپریل 1946 یعنی آج سے کوئی 66سال پہلے لاہور کے ایک میگزین ’’مضبوط چٹان ‘‘ کے صحافی سوریش کشمیری کو انٹرویو دیتے پاکستان کے متعلق اپنے جن خدشات کا اظہار کیا وہ آج مکمل طور سے صادق دکھائی دیتی ہیں کہ جس میں اُنہوں نے کوئی آٹھ نکاتوں پر بحث کی کہ جنکا خلاصہ کچھ یوں ہے ۔
-1 نا اہل سیاسی رہنماؤں کے باعث پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو فوجی آمریت سے سہارا دیا جائے گا کہ جیسا بیشتر مسلمان ممالک میں ہے ۔
-2 غیر ملکی یا بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے یہ ملک کبھی با وقار ہوتے اٹھ کھڑا نہ ہو پائے گا ۔
-3 ہمسایوں سے دوستانہ تعلقات نہ ہونے کے باعث متوقع جنگوں کا خطرہ ہمیشہ رہے گا ۔
-4 داخلی طور پر عدم اطمینان کیساتھ ساتھ علاقائی طور پر بھی تضادات پروان چڑھتے رہیں گے ۔
-5پاکستان کے نو دو لتیے صنعتکار قومی دولت کو لوٹنے میں ذرا بھی نہ ہچکچائیں گے۔-6 نو دولتیوں کی ایسی لوٹ مار و غریبوں کے حد درجے استحصال کے بعد اس ملک میں طبقاتی جنگ کے خطرے کو بھی نہیں ٹالا جا سکتا ۔
-7 معاشرے میں پائے جانے والی اس طرز کی کشیدگی و عدم اطمینان کو جھیلتے یہاں کے نوجوان نہ صرف نظریہ پاکستان سے مایوس ہونگے بلکہ اس مایوسی کے باعث و ہ مذہب سے بھی دوری اختیار کرینگے جو یقینی طور پر عالم اسلام کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا ۔
-8 نا اہل سیاسی رہنماؤں کی حتمی نا کامی کے بعد طویل آمریت اور پھر قرضوں کا بوجھ ، نو دولتیوں کی لوٹ کھسوٹ ، اندرونی و بیرونی انتشار میں شدت کہ جسکے سبب محب الوطنی کے جذبے میں کمی کے بعد بین الاقوامی قوتوں کیلئے یہ نہایت سہل رہے گا کہ وہ سازشوں کے ذریعے پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے چلائیں۔
یقینی طور سے بیان کردہ ان آٹھ نکاتوں میں کوئی ایک بھی ایسا نکتہ نہیں کہ جس سے انکار کیا جا سکتا ہو لہٰذا یہ بات قابل افسوس ہے کہ آج بھی اسلام کے نام سے خود کو منسوب کرتے پاکستانی علما تو درکنار ہمارے بلوچ عالم بھی پاکستان کے وجود و اُس کے دفاع کی بات کرتے نازاں ہوتے احمقانہ طور پر اس بلوچ و اسلام مخالف ریاست کے معمار و محافظ ہوتے اسلام زندہ باد کے ہی نعرے لگاتے ہیں جبکہ اُنہیں مولانا آزاد جیسے حقیقی عالم دین کے نقش قدم پر چلتے اسلام کی خدمت کرنی چاہیے اور خصوصاً ان وقتوں میں کہ جب اس ریاست نے خصوصی طور پر اُمت کی اُس قوم کو با قاعدہ کچلنے کیلئے اپنی تمام طاقت صرف کر دی کہ جس قوم کے ثقافتی اقدار و روایات اُمت کے دیگر اقوام کے ثقافتی اقدار سے زیادہ اسلامی تعلیمات کے مشاہبہ ہیں ۔ بلوچ علماؤں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ہمارے ثقافتی اقدار جو بلا شبہ ہمارے مذہبی عقیدے پر پورا اترتے ہیں ، اسلام سے زیادہ مشاہبہ ہونے کے باعث خدا و ند کریم کی نعمت ہیں جو حملہ آور ہوئے کسی بھی قومی ثقافت کی یلغار سے تباہی کے سبب فنا ہو سکتی ہیں لہٰذا اُس کا تحفظ محض قومی نہیں بلکہ ایک مذہبی فریضہ بھی ہے جسے پاکستانی خفیہ اداروں کی پیدا کردہ ان رہزنوں و نام نہاد عالموں کی باتوں میں آتے فراموش نہیں کیا جا سکتا جو دین کا لبادہ اوڑھےکردہ ان رہزنوں و نام نہاد عالموں کی باتوں میں آتے فراموش نہیں کیا جا سکتا جو دین کا لبادہ اوڑھے پاکستانی خفیہ اداروں کی بیان کر دہ تاکیدوں کو اسلامی تعلیمات سے منسوب کرنے کا گناہ کرتے ہوں ۔ اس زمرے میں ہمیں اپنی قومی جدوجہد کو جہاد کے طور سے سمجھتے ، مزید طاقت بخشتے اُس پاک ریاست ( آزاد بلوچستان ) کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا کہ جہاں قبضہ گیریت و قوموں کو محکوم کرتے اُنکا استحصال کرنے کی شیطانی خصلتوں کے بنا بھی اسلام کا جھنڈا بلند کیا جا سکتا ہو ۔
اس ضمن میں ہمیں پاکستانی خفیہ اداروں کے پیدا کردہ بہروپیوں و حقیقی علماء اسلامی کی پہچان کرنا ہو گی جو یقینی طور پر مولانا آزاد جیسی مثالی شخصیت سے موازنے پر کی جا سکتی ہے ۔ مثلاً کچھ دیر کو اگر ہم سوچیں کہ اک ایسا انسان جو محض 12 سال کی عمر میں علم کی یہ پیاس لئے خود کو محنت کی بھٹی میں تاپتا ہو کہ اُسے غزالی کی سوانح عمری لکھنی ہے جو فقط 14 سال کی عمر میں ہی ہندوستان کے نہایت قابل تعریف ادبی میگزین میں با قاعدہ سے آرٹیکل لکھتا ہو کہ جنہیں پڑھتے مولانا شبلی نعمانی جیسی شخصیت کہ جنہیں دنیا شمس العلماء یعنی ’’علم کا سورج و روشنی ‘‘ کہے ، وہ بھی متاثر ہو ں ،ایسا انسان جو 16 سال کی عمر میں اپنی علمی جہت کا ایک جز پورا کرتے کسی قابل معلم کی طرح دیگر طلبہ کو اسلام ، فلسفہ ، ریاضی و منطق پڑھاتا ہو ، ال ہلال جیسے اخبار کا خالق و قلم کار کہ جسے اپنے صحافتی معیار کی بدولت ایسی شہرت ملے کہ انگریز سرکار کی سیٹی غائب ہو اور جسکے متوقع اثرات کو دیکھتے محض 5 مہینوں کے اندر ہی ممنوعہ قرار دیا جائے ، ایسا انسان جو اپنی سیاسی جدوجہد میں زندان میں قید ہو مگر پھر بھی خدمت اسلام و علم کی چادر تھامے رہتے زندان میں قید رہنے کے با وجود بھی قرآن کا اردو ترجمہ بمعہ تفسیر نامی اپنی کتاب کی پہلی جلد لکھتے اُسے مکمل کر دے ۔ ایسا فلسفی کہ جسکی فلسفیانہ احکایتوں پر گاندھی جیسی بڑی شخصیت اُسے )شہنشاہِ علم ( کہتے اُن کا موازنہ فیشا غورث ، ارسطو و افلاطون کے پائے کے دانشوروں سے کرتے ہوں ، سیاسی جدوجہد میں آپکی دیدہ دلیری دیکھتے خود نہرو آپکو ’’میرِ کارواں ‘‘ کہتے پکاریں اور آزادی کے بعد وزیر اعظم بنتے آپکو اپنی کابینہ میں اپنے بعد اولین درجہ دیں اور ساتھ میں قومی پالیسی بناتے آپکی خاص صلح و رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دیں ، ایسا انسان جو اسلامی تعلیمات کے تحت کثیرالقومی اسلام یعنی (اُمہؔ ) کے قائل ہوتے ہوئے بھی اقوام کے وجود کو خدا تعالیٰ کی رضا کہتا مختلف اقوام کی قومی آزادی کو تسلیم کرتے خود اُن سے قربت پانے و اُنکی قومی آزادی میں حائل رکاوٹوں کو بہتر سمجھنے کی خاطر خود افغانستان ، مصر ، شام ، ترکی و عراق کا دورہ کرتے مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھتے سامراج مخالف قومی جدوجہدوں کو عین اسلامی قرار دیتے خود بھی سامراج مخالف جدوجہد کا حصہ بنتا ہو ، یا وہ عالم کہ جسکے علم سے متاثر ہوئے اُسے آزاد ہندوستان میں وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا جائے اور وہ جدید علوم کے تحت ہندوستان میں صنعت و حرفت کی ترقی کیلئے سب سے پہلا ریسرچ ادارہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھتا ہو ، وہ عالم کی جسکی علمی قابلیت و خدمات کو تسلیم کرتے آج بھی ہندوستان کی ایک ارب 20 کروڑ عوام اُس عظیم عالم کی تاریخ ولادت کو (نیشنل ایجوکیشن ڈے )یعنی قومی تعلیمی دن کے طور پر مناتی ہو ، جسکی علمی قابلیت و جدوجہد کو دیکھتے اُسے ہندوستان کے سب سے معزز شہری ایوارڈ ’’بھارت رتنا‘‘ سے نوازا جائے ، وہ انسان دوست ، خدا ترس و عظیم مسلمان مفکر کہ جسکا اصل نام ہی ’’ابو کلام ‘‘ یعنی ’’بابائے گفت یا آقا ئے گفتار ‘‘ ہو …… کیا اُس کا موازنہ ایسے انسان سے کیا جا سکتا ہے جو خود کو عالم دین کہتا ، اسلام جیسے آفاقی مذہب کو محض طہارت ، غسل و استنجے کی بے معنی بحث تک محدود رکھے ؟ کہ جسکے مطابق دینی مسائل محض عمامے کی رنگت و پائنچوں کی اونچائی اور داڑھی کی لمبائی جیسے مسائل پر محیط ہو ؟ یا ایسا مولوی جو پاکستانی خفیہ اداروں کی منصوبہ بندی کے تحت پہلے سوویت روس کو امریکہ کے سامنے زیر کرنے کی جنگ کو جہاد کا نام دیتے امریکی اتحادی بنتا ڈالر کماتا ہو اور جب پاکستانی خفیہ اداروں کے مفادات امریکہ کے بر خلاف ہوں تو تمام مجاہدین کو زر خرید فوج (دہشتگر دوں)کی مانند استعمال کرتا اُنہیں امریکہ مخالف بنا دیتا ہو ایسا مولوی کے جس کے پاس کفار کا اتحادی و کفار کا دشمن ہونے کا جواز محض ذاتی مفاد ہو ! ایسا مولوی جو اُس ریاست کو اسلامی کہتا ہو کہ جس کا اسلام پہ چلنے کا عزم امریکی امداد سے مشروط ہو کہ جب سوویت روس کے خلاف جنگ کا دور دورہ تھا تو پوری ریاستی مشینری بشمول ٹی وی پہ مذہبی پروگراموں کا سلسلہ تھا اور آج چونکہ امداد ’’جہاد نہ کرنے ‘‘ سے مشروط کی گئی ہے لہٰذا سالہ سال ٹی ویپہ عشاء کی چلنے والی اذان کو بھی جگہ نہیں دی جا رہی اور اس کے بجائے جالب و فیض جیسے اُن شاعروں کے اشعار چلائے جا رہے ہیں کہ کل تک یہ ریاست جنہیں خود غدار پکارا کرتی ! ایسا نام نہاد عالم جو اُس فوج کو اسلامی کہتا پاک سمجھے کہ جس نے بنگالی مسلمانوں کا نہ صرف نا حق خون بہا یا بلکہ زنا بالجبر جیسے گناہ کا مرتکب ہو ا ! ایسا نام نہاد مولوی جو یہ تو جانتا ہو کہ اسلام میں غلام رکھنے کی سخت ممانعت ہے مگر وہ اپنے دہرے معیار کے تحت اُس ریاست کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیتا کہ جس ظالم ریاست نے اُمت کی پوری ایک قومی یعنی بلوچ کو عرصہ دراز سے غلام رکھا ہو ۔
در حقیقت یہ حقیقی علماء اسلام نہیں بلکہ وہ بہروپیے ہیں کہ جنہیں پاکستان اپنی قبضہ گیریت کو برقرار رکھنے کیلئے عام عوام میں بحیثیت علماء شہرت دلاتا ہے تاکہ عام عوام میں اُنکی مقبولیت کے بعد اُنہی سے اپنے اس غیر اسلامی عمل کا اسلامی جواز ( جو قطعاً اسلامی نہیں ) حاصل کیا جائے اور یہ بہروپیے بنا خوفِ خدا فقط ذاتی مفادات کے تحت لاکھوں انسانوں کے استحصال و اُن کی اُس شناخت کو فنا کر نے کیلئے اپنا مجرمانہ کردار ادا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ نے ہماری پہچان کیلئے ہمیں عنایت کی ۔ ان کے ایسے دہرے معیارات سے ہی اُن کی شخصیت کا احاطہ کیا جا سکتا ہے مثلاً ہم پوری پاکستانی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو کیا یہ سوال جائز نہیں کہ یہ ہندوستان کہ جہاں پاکستان سے بھی زائد مسلمان آباد ہیں کہ جہاں صرف دہلی جیسے ایک شہر میں ہمارے مساجد کی تعداد ہزاروں ہے کہ جن میں جامع مسجد سے مماثل ہماری شاندار عبادت گاہوں کی اگر فہرست تیار کی جائے تو اسلامی تعمیرات کا ایک خزانہ محض دہلی سے ہی بر آمد ہو سکتا ہے ۔ یہ وہاں تو جہاد کی بات کرتے ہیں مگر ہمارے دوسرے ہمسایے ممالک یعنی ایران کہ جس کے دارالخلافہ یعنی تہران میں بد قسمتی سے ایک بھی سنی مسجد نہیں ، جہاں ہمارے مساجد کی تعمیر پر غیر اعلانیہ پابندی ہے ، اُس کے بر خلاف ان میں جہاد کا کوئی جنون نہیں ! ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کو اپنے مذہبی فریضے کی مکمل آزادی ہونے کے با وجود بھی ان کے وہاں جہاد کرنے کا جذبہ ختم نہیں ہوتا مگر یہی پاکستانی اُس چین کو اپنا دوست کہتے نہیں تھکتے کہ جس ملک میں سرے سے کوئی بھی مذہب اپنانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہو ، کہ جہاں لا دینیت کو سرکاری سطح پر با ضابطہ(سرکاری طورپر)تسلیم کیا جاتا ہو کہ جہاں ایک ارب انسانوں کو جبری مذہب سے دو ر رکھا جاتا ہو کہ جہاں کُل آبادی کا بیشتر ہجم لا دین لوگوں پر مشتمل ہو کہ جہاں ایک ارب لوگوں میں محض 1%مسلمان ہوں ، وہاں نہ جہاد کی بات کی جاتی ہے اور نہ وہاں اسلام پھیلانے کا کوئی منصوبہ موضوع بنتا ہے جبکہ اس کے بر عکس ان کے ہر تبلیغی کارواں کا رخ اُ س بلوچ سر زمین کی جانب ہوتا ہے کہ جہاں کی 99% آبادی ان سے صدیوں پہلے اسلام قبول کر چکی ہے ۔ کیا یہ سوال اُن کی شخصیات کو غیر معتبر نہیں بنا دیتا کہ آج جب بلوچستان اپنی غلامی کے بر خلاف آزادی کی منزلیں طے کر رہا ہے تو اُسے مسلمان ہونے کے با وجود لگاتار اسلام کا درس دیتے قومی آزادی کی اپنی تحریک سے دستبردار کیا جا رہا ہے جبکہ اُن کا پیغام اگر واقعتا اسلامی ہے تو اُن کے تبلیغی کاموں کی اشد ضرورت تو دیگر ہمسایہ ممالک میں ہے !
ان حقائق بر تبصرہ کرنے کا میرا مقصد اپنے جہادی و تبلیغی بھائیوں کو چین یا ایران کے خلاف بھڑکانا نہیں اور نہ ہی میں ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کو نظر انداز کرنے کی تلقین کر رہا ہوں بلکہ ان سوالات کا مقصد خود اُنہیں یہ احساس دلانا ہے کہ جہاد یا تبلیغ جیسے مقدس فریضے کیلئے کسی ایسے انسان کو اپنا رہبر نہ چنا جائے کہ جسے ہمارے مذہبی احساسات کو استعمال کرتے پاکستانی خفیہ اداروں کے سامنے سر خرو ہونا ہو کیونکہ جہاد و تبلیغ کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے نا کہ کسی ریاست کی استحصالی و سیاسی پالیسیوں کی تکمیل کیلئے کسی قوم کو اسکی جدوجہد سے دستبردار کرنا اور اس مد میں تو ایسے سوالات کی ایک پوری فہرست ترتیب دی جا سکتی ہے کہ جس سے اُن پاکستان نواز عالموں کی شخصیات کو مذبذب کیا جا سکتا ہے جو پاکستانی خفیہ اداروں کے احکامات پر بلوچ قوم کو اسلام کے پاک نام پر اپنے تخلیق کردہ دہرے معیارات کے تحت گمراہ کرتے قومی جدوجہد سے دستبردار کرنے پہ اکساتے ہوں ، مگر چونکہ اس تحریر کا مقصد ذاتیات پر تبصرہ کرنے کے بجائے اسلام کی اُس شخصیت سے آپ قارئین کو آشنا کرنا ہے کہ جس کے متعلق ہمارے یہاں ایک لفظ بھی نہیں کہا جاتا اور بعض دفعہ تو اس حد تک نفرت ظاہر کی جاتی ہے کہ آپ اگر کسی فلمی قسم کے پاکستانی کو یہ بتا دیں کہ بھارتی ادا کار عامر خان کا شجرہ نسب مولانا آزاد سے ملتا ہے تو وہ بھی شائد عامر خان کی فلموں کا بائیکاٹ کرتیاُسے پاکستان دشمن تصور کرے ۔ اسی لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا موضوع ایک مذہبی شخصیت پر تبصرہ کرتے بھی کسی حد تک انقلابی ہی ہے جبکہ اس عالم کا یہ اقرار تو نہایت انقلابی ہے کہ اقوام کی قومی جدوجہد بھی عین اسلامی و شرعی ہے کیونکہ اُن کے مطابق لفظ ’’اُمہؔ ‘‘ قوم نہیں بلکہ مختلف مسلم اقوام کے اتحاد کا نام ہے ۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں خود کہتے ہی کہ :’’ قرآن کے مطابق لفظ قوم ایک مذہب کو ماننے والوں کیلئے نہیں بلکہ ایک ثقافت رکھنے والوں کیلئے بھی استعمال ہوا ہے جبکہ لفظ ’’ اُمہ ؔ ‘‘ ایک مذہب کی مختلف اقوام کو مخاطب کرنے کیلئے خداوند کریم نے چنا اور اسی طرح یہ ہر قوم کا حق ہے کہ خدا کی عنایت کردہ نعمت یعنی آزادی اُسے ہر حال میں ملے کیونکہ یہ وہ بیش قیمتی نعمت ہے کہ جسے فقط مذہب کی بنیاد پر نہیں بانٹا جا سکتا ۔ ‘‘
میرا یہ لکھا اُس انسان کے متعلق ہے جو اس آفاقی سچ کو تسلیم کرنے کی جرأت رکھتا تھا کہ قومی شناخت خدا کی عنایت کردہ وہ نعمت ہے کہ جسکی توسط خدا نے ہمیں مشاہبہ اطوار عنایت کرتے ایک ثقافت کے تحت یکجا کرتے اک جداگانہ پہچان دی اور خدا کی عطا کردہ اس پہچان کے تحفظ کی جنگ قطعاً مذہبی تعلیمات کے بر عکس نہیں ، اک ایسا انسان کہ جسے کسی ظالم فوج کا خوف نہیں ، جو اپنے ذاتی مفادات کو بر طرف کرتے خالص اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر حق کو حق و نا حق کو نا حق کہنے کی جرأت رکھتا تھا کہ جس نے سامراج دوستی و انگریزوں کی پالیسیوں پر نرم رویہ رکھنے والے اُن وقتوں کے معتبر شخصیت سر سید احمد خان جیسے اہم رہنما پر بلا خوف تنقید کرنے کی جرأت رکھی ، کہ جس نے گاندھی کے پیچھے آنکھیں موند کے چلنے کو بت پرستی جیسے کفر سے تشبیہ دیتے عدم تعاون تحریک (نان کارپوریٹ موومنٹ) میں گاندھی کے دستبردار ہوجانے پر بیچ کانگریس سیشن میں اُن پر تنقید کرنے کی ہمت دکھائی ، ایسا سچا مومن کہ جب اُسے پوچھا گیا کہ مولانا ، مسلم علماء تو زیادہ تر جناح کے ساتھ ہیں تو آپ کا جواب یہی تھا کہ ’’علماء تو اکبر اعظم کے ساتھ بھی تھے کہ جنہوں نے اُس کی خاطر اسلام کے نام پر ایک نیا کوئی مذہب تخلیق کر ڈالا اور ہمارے علماؤں کی اسی انفرادی نوعیت کی کمزوریوں کے سبب ہی عالم اسلام کی اس 1300 سالوں کی تاریخ میں ما سوائے چند علماؤں کے مسلمانوں کو آج اُن کے نام تک یاد نہیں ،مگر میں مسلمان ہوتے وہی کہونگا کہ جو حق ہے ، بے شک جو سچ ہے ۔ ‘‘ حاصل ہوئی سالہاسال پرانی ریکارڈنگ کا حصہ تھی لہٰذا ٹرانسکپشن میں سطحی کمی بیشیوں کا پیشگی اعتراف کیاجانا مناسب سمجھا گیا۔
تقریر
’’دنیا میں وہی بچتا ہے کہ جس کی بنیادیں مضبوط ہوں ۔ میں آپ کو آئندہ نقشوں کے بننے سے نہیں روکتا لیکن آل انڈیا کانگریس کی صدارت کے ان دو برسوں میں جو کوششیں میں نے کیں اور مسلمان لیڈروں نے جس طرح اُنہیں ٹکرایا اُسکے بیان کرنے کا یہ موقع تو نہیں لیکن آپ کی یاد دہانی کیلئے مجھے پھر دہرانا پڑتا ہے کہ جب میں نے مسلم لیگ کی اس پاکستانی اسکیم کی تمام تر پہلوؤں پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پورے ہندوستان کیلئے اس اسکیم کے جو بھی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کیلئے بھی یہ تجویز سخت تباہ کن ثابت ہوگی ۔ اس سے اُن کی کوئی مشکل حل ہونے کے بجائے مزید مشکلیں پیدا ہوجائینگی ۔
اول تو پاکستان کا لفظ ہی میرے نزدیک اسلامی تصورات کے خلاف ہے ۔ پیغمبر اسلام ؐ کا ارشاد ہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے تمام روحِ زمین کو میرے لئے مسجد بنا دی ‘‘
میرے مطابق اس روحِ زمین کو یوں پاک اور نا پاک میں تقسیم کرنا ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔ دوسری یہ کہ یہ پاکستان کی اسکیم ایک طرح سے مسلمانوں کی شکست کی علامت ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 10 کروڑ کے اندر ہے اور وہ اپنی زبردست تعداد کے ساتھ ایسی مذہبی و معاشرتی صفات کے حامل ہیں کہ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگیوں و پالیسیوں اور نظم و نسق کے تمام معاملات پر فیصلہ کن اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ پاکستان کی اسکیم کے ذریعے ان کی یہ ساری قوت و صلاحیت تقسیم و ضائع ہو جائے گی اور میرے نزدیک یہ بد ترین بزدلی کا نشان ہے کہ میں اپنے میراثِ پدری سے دستبردار ہو کر ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر قناعت کر لوں ۔ میں اس مسئلے کے دوسرے تمام پہلوؤں کو نظر انداز کرکے تنہا مسلم مفاد کے نقطہ نگاہ سے بھی غور کرنے کیلئے تیار ہوں اور پاکستانی اسکیم کو کسی بھی طرح سے مسلمانوں کیلئے مفید ثابت کر دیا جائے تو میں اسے قبول کر لوں گا اورد وسرے سے اسے منوانے پر اپنا پورا زور صرف کر ڈالوں گا ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم سے مسلمانوں کی اجتماع و ملکی مفاد کو زرا بھی فائد ہ نہ ہوگا اور نہ اُن کا کوئی اندیشہ دور ہو سکے گا ۔ ہاں جو تجویز اور فارمولہ میں نے تیار کیا تھا کہ جسے کامرہ مشن اور کانگریس دونوں سے ہی منظور کروالینے میں مجھے کامیابی بھی حاصل ہوئی اور جسکی روح سے تمام صوبے مکمل طور پر خود مختار قرار دے دیئے گئے تھے کہ جس میں پاکستانی اسکیم کی وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اُن نقائص سے پاک ہیں جو اُن کی اسکیم میں پائے جاتے ہیں ۔ آپ اگر جذبات سے بالا تر ہو کر اسکے ممکنہ نتائج پر غور کریں تو ہندو اکثریتی علاقوں میں کروڑوں کی تعداد میں یہ مسلمان مگر چھوٹی چھوٹی اقلیتوں کی صورت میں پورے ملک میں بکھر کر رہ گئے اور آج کے مقابلے میں آنے والے کل میں اور بھی زیادہ کمزور ہو جائیں گے ۔ جہاں اُن کے گھر بار ، بد دو باش ایک ہزار سال سے چلی آ رہی ہے اور جہاں اُنہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے مشہور و بڑے بڑے مراکز تعمیر کئے ، ہندو اکثریتی علاقوں میں بسنے والے یہ مسلمان ایک دن اچانک صبح آنکھ کھولتے ہی اپنے آپ کو اپنے وطن میں پڑوسی اور اجنبی پائیں گے ۔ صنعتی ، تعلیمی و معاشی لحاظسے پسماندہ ہونگے اور ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر ہونگے جو خالص ہندو راج بنے گی ۔ پاکستان میں اگر خواہ مکمل مسلم اکثریتی حکومت ہی قائم کیوں نہ ہو جائے اس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہر گز حل نہیں ہو سکے گا ۔ یہ دو ریاستیں ایک دوسرے کے مد مقابل ایک دوسرے کی اقلیتوں کا مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتی ۔ اس سے صرف یرغمال و انتقام کا راستہ کھلے گا ۔
میرے بھائیوں آپکو یاد ہو گا کہ وسط جون 1940 ء میں کانگریس کی صدارت سنبھالنے کے بعد جب میں نے ہندو مسلم اختلاف کے تصفیے پر بحیثیت صدر کانگریس ، مسٹر محمد علی جناح (صدر مسلم لیگ ) کو ایک تجویز بھیجی تھی کہ ہندوستان کے تمام صوبوں اور مرکز میں کسی ایک پارٹی کی وزارت کے بجائے کانگریس و مسلم لیگ پر مشتمل مخلوط وزارتیں بنائی جائیں ، لیکن مسٹر جناح نے میری تجویز یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ’’تم کو کانگریس شنوائی کی طرح کانگریس کا صدر بنا یا ہے ، اس لئے میں تم سے کسی طرح کی گفتگو نہیں کرنا چاہتا ہوں ‘‘ ۔ اور یوں برابر کی سطح پر ہندو مسلم تصفیے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا ۔ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی پہلی حکومت جو 14 ارکان پر مشتمل ہوتی اور جس میں 7 مسلمان نمائندے ہوتے اور 7 غیر مسلم نمائندے کہ جن میں ہندو صرف 2 ہوتے ، اسلام و مسلمانوں کے کون سے اہم مفاد کے پیش نظر مسٹر جناح کیلئے قابل قبول نہیں تھے ؟ کیا اس طرح مسلمانوں کو ہندوستان کی پہلی حکومت میں ایک معقول حصہ نہیں مل رہا تھا ؟
میرے بھائیوں میں آپ کو اس بات کی روشنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ جب لارڈ ول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے آخری وائس رائے مقرر ہو کر آئے اور اُنہوں نے دھیرے دھیرے سردار پٹیل ، جوہر لال نہرو و گاندھی وغیرہ جیسے کانگریسی رہنماؤں کو تقسیم کا نظریہ قبول کر لینے پر آمادہ کر لیا اور بالآخر 3 جون 1947 ء کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دینے کی تجویز کا اعلان کر دیا گیا ۔ میرے بھائیوں ، یہ اعلان دراصل نہ تو ہندوستان کے مفاد میں تھا اور نہ مسلمانوں کے مفاد میں ! اس سے صرف بر طانوی مفاد کی حفاظت مقصود تھی ، اس لئے کہ ہندوستان کی تقسیم اور مسلمان اکثریت کے صوبوں کی الگریاست قائم کر دینے سے بر طانیہ کو بر صغیر میں اپنے پاؤں ٹکانے کا موقع حاصل ہو جاتا تھا ۔ ایک ایسی ریاست جس میں مسلم لیگ کے نام سے بر طانیہ کے پسندیدہ افراد بر سرے اقتدار آ جائینگے مسقل طور پر بر طانیہ کے زیر اثر رکھی جا سکتی تھی اور اس کا اثر ہندوستان کے رویے پر بھی پڑنا لازم ہو گا ،ہندوستان جب یہ دیکھے گا کہ پاکستان پر انگریزوں کا اثر ہے تو وہ اپنے یہاں بھی انگریزوں کے مفاد کا لحاظ رکھے گا ۔ آخر کار 14 اگست 1947 ء میں ہندوستان تقسیم کر لیا گیا ۔ پاکستان و ہندوستان نامی دو آزاد ریاستیں وجود میں آئیں جو یکساں طور پر بر طانیہ کا من و یلت کی ممبر بننے پر راضی ہوگی اور پھر میرے بد ترین خدشات صحیح ثابت ہونے لگے ۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کا بد ترین دشمن بن کر قتل عام ، غارت گری اور لوٹ مار پر اتر آیا ۔ خون کی لکیروں کیساتھ دو ملکوں کی سرحدیں کھینچ جانے لگی اور افسوس یہ مسلمان تقسیم در تقسیم ہو کر رہ گئے ۔
لیکن اب کیا ہو سکتا ہے ، اگر چہ ہندوستان نے آزادی حاصل کرلی لیکن اسکا اتحاد باقی نہیں رہا ، پاکستان کے نام سے جو نئی ریاست وجود میں آئی ہے کہ جس میں بر طانیہ کے پسندیدہ افراد کا بر سرے اقتدار طبقہ وہ ہے جو بر طانوی حکومت کا پروردہ رہا ہے ۔ اس کے طرز عمل میں خدمتِ خلق و قربانی کا کبھی کوئی شائبہ نہیں رہا ہے اور صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے یہ لوگ پبلک کے کاموں میں شریک ہوتے رہے ہیں اور پاکستان کے قیام کا صرف ایک ہی نتیجہ ملا ہے کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی پوزیشن کمزور ہو کر رہ گئی ہے اور یہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان تو کمزور ہو ہی گئے ہیں ۔ یہ ہندوستان میں رہ جانے والے کروڑوں مسلمان جو ابد تک ہندوؤں کے ظلم اور انتقام کا شکار رہیں پاکستان میں بسنے والے مسلمان ان کی کوئی بھی مددنہ کرسکے گئے اور اسی طرح سے پاکستان میں بسنے والے مسلمان جس معاشرتی کمزوری و اقتصادی و سیاسی پسماندگی کا شکار رہیں گئے ، یہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان اُن کی کوئی بھی مدد نہ کر سکیں گے ۔ تو کیا یہ بات غور کرنے کی نہیں کہ تقسیم کی بنیاد ہی ہندو و مسلمان کے درمیان عداوت پہ رکھی گئی تھی تو پاکستان کے قیام سے یہ منافقت اک آہنی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کا حل اب اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے اور اسی طرح یہ دونوں ملک خوف وہراس کے تحتاپنے اپنے فوجی اخراجات بڑھاتے رہنے پر مجبور رہیں گے اور معاشی ترقی سے محروم ہوتے چلے جائیں گے ۔
میں آج اگر ملامت کروں تو کس کو کروں ! کیسے کروں اور کیونکر کروں ! اپنے بھائیوں کو ! اپنے عزیزوں کو ! کس دیوار سے سر ٹکراؤں !
آپ جانتے ہیں کہ مجھے کون سی چیز یہاں لے آئی ہے ؟ میرے لئے یہ شاہجان کی یادگار مسجد میں پہلا اجتماع نہیں ہے ، میں نے ایک زمانے میں بہت سی گرد پیش دیکھی تھی اور یہی آ کر خطاب کیا تھا ۔ جب تمہارے جسموں پر ایک میلے پن کی جگہ اسلام تھا اور تمہارے دلوں میں شک کے بجائے اعتماد تھا ۔ پھر آج ! تمہارے چہروں پہ مسکراہٹ اور دلوں کی دیوالی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار خوشی اور چند برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں ۔ تمہیں یاد ہے کہ جب میں نے تمہیں پکارا تو تم نے میری زبان کاٹ ڈالی ، میں نے قلم اُٹھا یا تو تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیئے ، میں نے چلنا چاہا تو تم نے میرے پاؤں کاٹ دیئے ، میں نے کروٹ لینی چاہی اور تم نے میری کمر توڑ دی ۔‘‘
تبصرہ
حدیث نبوی ؐ کی روشنی میں پاکستان کے وجود کو اسلامی تعلیمات کے منافی و حتیٰ کہ اسے مسلمانوں کے خلاف کفر کی ایک سازش قرار دیتے اسکے وجود کے بر خلاف معقول دلائل پیش کرنے والے عالم دین و بر صغیر میں مسلمانوں کے حقیقی رہنما مولانا عبدالکلام آزاد 11 نومبر 1888 ء میں مکہ شریف میں پیدا ہوئے ۔آپ کی والدہ ماجدہ کا سلسلۂ نسب عرب قوم سے تھا جبکہ آپ کے والد محترم ایک ایسے صوفی مولانا کی حیثیت سے جانے جاتے کہ جنکا شجرہ نسب صوفی خاندان کے اُن علماء سے تھا جو مذہبی اقدار کی سخت پاسداری کیلئے جانے جاتے ، بنیادی حوالوں سے آپ کے اجداد کا تعلق ہیرات (افغانستان) سے تھا جو سالوں پہلے انڈیا آئے۔ اُن وقتوں مغل بادشاہوں کا دور دورا ہوا کرتا تھا، آپ کے والد شیخ محمد خیرالدین جو ایک مذہبی اسکالر تھے، وہ مکہ ہجرت کرگئے جہاں انہوں نے مدینہکے ایک مشہور مذہبی اسکالر کی بیٹی سے شادی کی ۔ مکہ شریف میں ہی اس خاندان میں اُس عظیم ہستی کی ولادت ہوئی کہ جنہیں تاریخ مولانا آزاد کے نام سے یاد کرتی ہے ۔آپ کی پیدائش کے چند سال بعد آپ کا خاندان دوبارہ انڈیا (کلکتہ) تشریف لایا۔
مولانا عبدالکلام آزاد ایک ایسے آئیڈیل مذہبی شخصیت ہیں کہ جن کے سبب ہم مذہب اسلام کی اُن خوبیوں کو اُجاگر کر سکتے ہیں کہ جنہیں عالمی طاقتوں کے سیاسی مفادات و تضادات کے باعث اس خطے میں عموماً ماند رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ ایک ایسا مثالی کردار جو مذہب اسلام کی تعریف کیلئے ایک شناختی علامت کے طور پر دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کی اچھائیاں بیان کرتے بحیثیت اک قوی ثبوت و موضوع بن سکتا ہو ، آپ کی علمی قابلیت کا یہ احوال تھا کہ آپ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے ہر علمی مورچے میں شامل رہے ۔ آپ نے سیاسی شعور کی بیداری کیلئے نہ صرف مختلف رسالوں کے اجراء کو اپنی بدولت ممکن بنا یا بلکہ ہندوستان میں موجود متعدد زبانوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ایک بڑے ہجوم کو ایک منظم دستے میں بدلنے کیلئے اُن کی زبانوں کو شعوری طور سے سیکھا ۔ آپ کو پشتو ، ہندکو ، بنگالی ، اردو ، فارسی ، عربی ، ہندی و انگریزی پر کمال حاصل تھا ۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں موجود مختلف فرقوں کے مابین رواداری کا درس دینے کیلئے آپ نے اسلامی تعلیمات کے ہر فرقے کی مصلحتوں کو سمجھنے کی خاطر اُن کا بھر پور مطالعہ کیا ۔ آپ کو فقہ ، شریعت و تاریخ اسلام پر عبور ہونے کیساتھ ساتھ جدید علوم پر بھی دسترس حاصل تھی ۔ آپ در حقیقت اسلام کے اُن سچے عالموں میں سے تھے کہ جنہوں نے علم کو بنا تعصب دیکھتے اُسے حاصل کرنے والے کو سیرت نبویؐ پر چلنے والا مجاہد تصور کیا اور اس فرسودہ بحث کو درکنار کیا کہ جس کے تحت علم کو مختلف مدارج میں تقسیم کرتے اسلامی و غیر اسلامی میں تقسیم کیا جاتا ہو کیونکہ آپ کے مطابق ہم اُسے علم کہہ ہی نہیں سکتے کہ جسے غیر اسلامی کہا جا سکتا ہو یا جسے حاصل کرنے پر خدا کی ممانعت ہو ۔ آپ نے ریاضی ، جو میٹری ، الجبرا ، فلسفہ و تاریخ کیساتھ ساتھ دیگر سائنسی علوم کو خدا کی نعمت تصور کرتے نہ صرف اپنی شخصیت کو مزید نکھارا بلکہ اُن کی بدولت ہی آپ نے متعدد علمی رسالوں کے اجراء کو ممکن بنا یا اور اپنی متعدد تصانیف سے اہل علم کو بھیفیض یاب کیا ، جس میں بیشتر کا مقصد بر صغیر پر بر طانوی قبضے کے خلاف عام عوام کو سیاسی شعور دینا تھا ۔ آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بعض ایسے مقالمے بھی تحریر کئے کہ جنہیں اسلامی ادبی تحریروں کا ایک قیمتی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے ۔
مولانا آزاد ہندوستان کی سیاست میں وہ رہنما تصور کئے جاتے ہیں کہ جنہوں نے علمی مورچوں کے علاوہ عملاً بھی ہر سیاسی تحریک میں بھر پور متحرک رہتے اپنا اہم کردار ادا کیا ۔ آپ خلافت تحریک ، گاندھی کے( ستھیے گرھا )، 1919 ء کی (رولٹ ایکٹ )کے خلاف کہ جس میں انفرادی آزادی کے بعض پہلوؤں پر قدغن کی شقیں موجود تھی، جلیا والا باغ کے قتل عام کے خلاف اجتماعی تحریکوں و بر طانیہ سرکار سے عدم تعاون تحریک اور دیگر سول نا فرمانی کی تحریکوں میں صف اول کے دستوں میں کھڑے رہنما تھے ۔ آپ کی جرأ ت و سیاسی بالادگی کو دیکھتے 1923 ء میں آپکو کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا ، جس کے تحت آپ کو کانگریس کا سب سے کم عمر صدر ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ آپ نے انتھک محنت و اپنی قابلیت سے ہندوستانی قوم کو تعلیم و سماجی اصلاح کا وہ تصور پیش کیا کہ جس کی بنیاد پر ہی آپکو ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کا قلمدان سونپا گیا ۔ آپ نے بحیثیت وزیر تعلیم ہندوستان بھر میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکول میں داخلے کی نہ صرف با قاعدہ مہم کا آغاز کیا بلکہ تعلیم کی اہمیت کو اجا گر کرتے بالغ لوگوں کیلئے بھی تعلیم کے مواقع پیدا کئے ۔ آپ نے اپنے طے کر دہ قومی پروگرام کے تحت بڑی تیزی سے اسکولوں و لائبریریوں کے قیام کا آغاز کیا ۔ آپ نے قومی سیاست میں وزیر اعظم نہرو کی سوشلسٹ اقتصادی و صنعتی ماڈل کی بھر پور حمایت بھی انسانی خدمت کے اس جذبے کیساتھ کی کہ جس کے تحت نہ صرف ابتدائی تعلیم کی عالمی سطح کر بڑھایا جانا ممکن ہوا بلکہ اس کے تحت معاشرے کے ہر فرد خصوصاً عورتوں کو بھی کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے ۔ قرونِ وسطی کی دقیانوسی خیالات کو بر طرف کرتے اسلام میں موجود انسانی برابری کی اصل احساس کو فلسفہ اسلام کا اہم ستون قرار دیتے آپ نے عورتوں کیلئے با عزت معاشی مواقع پیدا کرتے نہ صرف غربت پر قابو پانے کا راستہ تلاشا بلکہ اُنہیں بہتر سہولیات فراہم کرتے اُن کا حقیقی وقار اُنہیں دینے میں بھی آپ کا کلیدی کردار قابلِ ستائشہے ۔ سماجی و معاشی دشواریوں کو دور کرتے معاشرے کو علم و خرت کے رجحانات کی طرف مائل کرنے میں مولانا صاحب کے کردار کو نہ صرف ہندوستانی معاشرے میں پذیرائی ملی بلکہ دنیا بھر میں آپکی قابلیت کو عملاً تسلیم کیا گیا اور اسی عوض 1956 میں آپکو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو نیسکو )کہ جسکا مقصد تعلیم کے ذریعے مثبت معاشرتی و ثقافتی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنا تھا ۔ اس ادارے کا صدر منتخب کیا گیا ۔مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت و انکی جدوجہد پر اگر نظر رکھی جائے تو یہ کہنا قطعاً غلط نہیں کہ وہ ایک ایسے اسکالر و دانشور تھے کہ جنہوں نے نہ صرف اپنے عقیدے پہ نکتہ چینی کرنے والے لوگوں کو سائنسی و فلسفیانہ دلائل دیتے لا جواب کر دینے کی سکت تھی بلکہ وہ ایسے سیاسی مفکر بھی تھے کہ جنہیں اپنے حاصل کر دہ بیش قیمتی علم کے تحت مستقبل میں رونما ہونے والے حالات کا قبل از ادراک ہوتا ۔ پاکستان کے قیام و ہندوستان کی آزادی کے دوران اُن کے مختلف مقالموں ، انٹرویوز و تقاریر کا اگر مطالعہ کرتے آج پاکستان کا بحیثیت ایک اسلامی ریاست جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ مولانا کا وہ اندیشہ کہ جسکے تحت پاکستان کا قیام کفر کی سازش تھی اپنی قلعی کھولتے ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے ۔ اُنہوں نے اپریل 1946 یعنی آج سے کوئی 66سال پہلے لاہور کے ایک میگزین ’’مضبوط چٹان ‘‘ کے صحافی سوریش کشمیری کو انٹرویو دیتے پاکستان کے متعلق اپنے جن خدشات کا اظہار کیا وہ آج مکمل طور سے صادق دکھائی دیتی ہیں کہ جس میں اُنہوں نے کوئی آٹھ نکاتوں پر بحث کی کہ جنکا خلاصہ کچھ یوں ہے ۔
-1 نا اہل سیاسی رہنماؤں کے باعث پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو فوجی آمریت سے سہارا دیا جائے گا کہ جیسا بیشتر مسلمان ممالک میں ہے ۔
-2 غیر ملکی یا بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے یہ ملک کبھی با وقار ہوتے اٹھ کھڑا نہ ہو پائے گا ۔
-3 ہمسایوں سے دوستانہ تعلقات نہ ہونے کے باعث متوقع جنگوں کا خطرہ ہمیشہ رہے گا ۔
-4 داخلی طور پر عدم اطمینان کیساتھ ساتھ علاقائی طور پر بھی تضادات پروان چڑھتے رہیں گے ۔
-5پاکستان کے نو دو لتیے صنعتکار قومی دولت کو لوٹنے میں ذرا بھی نہ ہچکچائیں گے۔-6 نو دولتیوں کی ایسی لوٹ مار و غریبوں کے حد درجے استحصال کے بعد اس ملک میں طبقاتی جنگ کے خطرے کو بھی نہیں ٹالا جا سکتا ۔
-7 معاشرے میں پائے جانے والی اس طرز کی کشیدگی و عدم اطمینان کو جھیلتے یہاں کے نوجوان نہ صرف نظریہ پاکستان سے مایوس ہونگے بلکہ اس مایوسی کے باعث و ہ مذہب سے بھی دوری اختیار کرینگے جو یقینی طور پر عالم اسلام کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا ۔
-8 نا اہل سیاسی رہنماؤں کی حتمی نا کامی کے بعد طویل آمریت اور پھر قرضوں کا بوجھ ، نو دولتیوں کی لوٹ کھسوٹ ، اندرونی و بیرونی انتشار میں شدت کہ جسکے سبب محب الوطنی کے جذبے میں کمی کے بعد بین الاقوامی قوتوں کیلئے یہ نہایت سہل رہے گا کہ وہ سازشوں کے ذریعے پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے چلائیں۔
یقینی طور سے بیان کردہ ان آٹھ نکاتوں میں کوئی ایک بھی ایسا نکتہ نہیں کہ جس سے انکار کیا جا سکتا ہو لہٰذا یہ بات قابل افسوس ہے کہ آج بھی اسلام کے نام سے خود کو منسوب کرتے پاکستانی علما تو درکنار ہمارے بلوچ عالم بھی پاکستان کے وجود و اُس کے دفاع کی بات کرتے نازاں ہوتے احمقانہ طور پر اس بلوچ و اسلام مخالف ریاست کے معمار و محافظ ہوتے اسلام زندہ باد کے ہی نعرے لگاتے ہیں جبکہ اُنہیں مولانا آزاد جیسے حقیقی عالم دین کے نقش قدم پر چلتے اسلام کی خدمت کرنی چاہیے اور خصوصاً ان وقتوں میں کہ جب اس ریاست نے خصوصی طور پر اُمت کی اُس قوم کو با قاعدہ کچلنے کیلئے اپنی تمام طاقت صرف کر دی کہ جس قوم کے ثقافتی اقدار و روایات اُمت کے دیگر اقوام کے ثقافتی اقدار سے زیادہ اسلامی تعلیمات کے مشاہبہ ہیں ۔ بلوچ علماؤں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ہمارے ثقافتی اقدار جو بلا شبہ ہمارے مذہبی عقیدے پر پورا اترتے ہیں ، اسلام سے زیادہ مشاہبہ ہونے کے باعث خدا و ند کریم کی نعمت ہیں جو حملہ آور ہوئے کسی بھی قومی ثقافت کی یلغار سے تباہی کے سبب فنا ہو سکتی ہیں لہٰذا اُس کا تحفظ محض قومی نہیں بلکہ ایک مذہبی فریضہ بھی ہے جسے پاکستانی خفیہ اداروں کی پیدا کردہ ان رہزنوں و نام نہاد عالموں کی باتوں میں آتے فراموش نہیں کیا جا سکتا جو دین کا لبادہ اوڑھےکردہ ان رہزنوں و نام نہاد عالموں کی باتوں میں آتے فراموش نہیں کیا جا سکتا جو دین کا لبادہ اوڑھے پاکستانی خفیہ اداروں کی بیان کر دہ تاکیدوں کو اسلامی تعلیمات سے منسوب کرنے کا گناہ کرتے ہوں ۔ اس زمرے میں ہمیں اپنی قومی جدوجہد کو جہاد کے طور سے سمجھتے ، مزید طاقت بخشتے اُس پاک ریاست ( آزاد بلوچستان ) کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا کہ جہاں قبضہ گیریت و قوموں کو محکوم کرتے اُنکا استحصال کرنے کی شیطانی خصلتوں کے بنا بھی اسلام کا جھنڈا بلند کیا جا سکتا ہو ۔
اس ضمن میں ہمیں پاکستانی خفیہ اداروں کے پیدا کردہ بہروپیوں و حقیقی علماء اسلامی کی پہچان کرنا ہو گی جو یقینی طور پر مولانا آزاد جیسی مثالی شخصیت سے موازنے پر کی جا سکتی ہے ۔ مثلاً کچھ دیر کو اگر ہم سوچیں کہ اک ایسا انسان جو محض 12 سال کی عمر میں علم کی یہ پیاس لئے خود کو محنت کی بھٹی میں تاپتا ہو کہ اُسے غزالی کی سوانح عمری لکھنی ہے جو فقط 14 سال کی عمر میں ہی ہندوستان کے نہایت قابل تعریف ادبی میگزین میں با قاعدہ سے آرٹیکل لکھتا ہو کہ جنہیں پڑھتے مولانا شبلی نعمانی جیسی شخصیت کہ جنہیں دنیا شمس العلماء یعنی ’’علم کا سورج و روشنی ‘‘ کہے ، وہ بھی متاثر ہو ں ،ایسا انسان جو 16 سال کی عمر میں اپنی علمی جہت کا ایک جز پورا کرتے کسی قابل معلم کی طرح دیگر طلبہ کو اسلام ، فلسفہ ، ریاضی و منطق پڑھاتا ہو ، ال ہلال جیسے اخبار کا خالق و قلم کار کہ جسے اپنے صحافتی معیار کی بدولت ایسی شہرت ملے کہ انگریز سرکار کی سیٹی غائب ہو اور جسکے متوقع اثرات کو دیکھتے محض 5 مہینوں کے اندر ہی ممنوعہ قرار دیا جائے ، ایسا انسان جو اپنی سیاسی جدوجہد میں زندان میں قید ہو مگر پھر بھی خدمت اسلام و علم کی چادر تھامے رہتے زندان میں قید رہنے کے با وجود بھی قرآن کا اردو ترجمہ بمعہ تفسیر نامی اپنی کتاب کی پہلی جلد لکھتے اُسے مکمل کر دے ۔ ایسا فلسفی کہ جسکی فلسفیانہ احکایتوں پر گاندھی جیسی بڑی شخصیت اُسے )شہنشاہِ علم ( کہتے اُن کا موازنہ فیشا غورث ، ارسطو و افلاطون کے پائے کے دانشوروں سے کرتے ہوں ، سیاسی جدوجہد میں آپکی دیدہ دلیری دیکھتے خود نہرو آپکو ’’میرِ کارواں ‘‘ کہتے پکاریں اور آزادی کے بعد وزیر اعظم بنتے آپکو اپنی کابینہ میں اپنے بعد اولین درجہ دیں اور ساتھ میں قومی پالیسی بناتے آپکی خاص صلح و رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دیں ، ایسا انسان جو اسلامی تعلیمات کے تحت کثیرالقومی اسلام یعنی (اُمہؔ ) کے قائل ہوتے ہوئے بھی اقوام کے وجود کو خدا تعالیٰ کی رضا کہتا مختلف اقوام کی قومی آزادی کو تسلیم کرتے خود اُن سے قربت پانے و اُنکی قومی آزادی میں حائل رکاوٹوں کو بہتر سمجھنے کی خاطر خود افغانستان ، مصر ، شام ، ترکی و عراق کا دورہ کرتے مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھتے سامراج مخالف قومی جدوجہدوں کو عین اسلامی قرار دیتے خود بھی سامراج مخالف جدوجہد کا حصہ بنتا ہو ، یا وہ عالم کہ جسکے علم سے متاثر ہوئے اُسے آزاد ہندوستان میں وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا جائے اور وہ جدید علوم کے تحت ہندوستان میں صنعت و حرفت کی ترقی کیلئے سب سے پہلا ریسرچ ادارہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھتا ہو ، وہ عالم کی جسکی علمی قابلیت و خدمات کو تسلیم کرتے آج بھی ہندوستان کی ایک ارب 20 کروڑ عوام اُس عظیم عالم کی تاریخ ولادت کو (نیشنل ایجوکیشن ڈے )یعنی قومی تعلیمی دن کے طور پر مناتی ہو ، جسکی علمی قابلیت و جدوجہد کو دیکھتے اُسے ہندوستان کے سب سے معزز شہری ایوارڈ ’’بھارت رتنا‘‘ سے نوازا جائے ، وہ انسان دوست ، خدا ترس و عظیم مسلمان مفکر کہ جسکا اصل نام ہی ’’ابو کلام ‘‘ یعنی ’’بابائے گفت یا آقا ئے گفتار ‘‘ ہو …… کیا اُس کا موازنہ ایسے انسان سے کیا جا سکتا ہے جو خود کو عالم دین کہتا ، اسلام جیسے آفاقی مذہب کو محض طہارت ، غسل و استنجے کی بے معنی بحث تک محدود رکھے ؟ کہ جسکے مطابق دینی مسائل محض عمامے کی رنگت و پائنچوں کی اونچائی اور داڑھی کی لمبائی جیسے مسائل پر محیط ہو ؟ یا ایسا مولوی جو پاکستانی خفیہ اداروں کی منصوبہ بندی کے تحت پہلے سوویت روس کو امریکہ کے سامنے زیر کرنے کی جنگ کو جہاد کا نام دیتے امریکی اتحادی بنتا ڈالر کماتا ہو اور جب پاکستانی خفیہ اداروں کے مفادات امریکہ کے بر خلاف ہوں تو تمام مجاہدین کو زر خرید فوج (دہشتگر دوں)کی مانند استعمال کرتا اُنہیں امریکہ مخالف بنا دیتا ہو ایسا مولوی کے جس کے پاس کفار کا اتحادی و کفار کا دشمن ہونے کا جواز محض ذاتی مفاد ہو ! ایسا مولوی جو اُس ریاست کو اسلامی کہتا ہو کہ جس کا اسلام پہ چلنے کا عزم امریکی امداد سے مشروط ہو کہ جب سوویت روس کے خلاف جنگ کا دور دورہ تھا تو پوری ریاستی مشینری بشمول ٹی وی پہ مذہبی پروگراموں کا سلسلہ تھا اور آج چونکہ امداد ’’جہاد نہ کرنے ‘‘ سے مشروط کی گئی ہے لہٰذا سالہ سال ٹی ویپہ عشاء کی چلنے والی اذان کو بھی جگہ نہیں دی جا رہی اور اس کے بجائے جالب و فیض جیسے اُن شاعروں کے اشعار چلائے جا رہے ہیں کہ کل تک یہ ریاست جنہیں خود غدار پکارا کرتی ! ایسا نام نہاد عالم جو اُس فوج کو اسلامی کہتا پاک سمجھے کہ جس نے بنگالی مسلمانوں کا نہ صرف نا حق خون بہا یا بلکہ زنا بالجبر جیسے گناہ کا مرتکب ہو ا ! ایسا نام نہاد مولوی جو یہ تو جانتا ہو کہ اسلام میں غلام رکھنے کی سخت ممانعت ہے مگر وہ اپنے دہرے معیار کے تحت اُس ریاست کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیتا کہ جس ظالم ریاست نے اُمت کی پوری ایک قومی یعنی بلوچ کو عرصہ دراز سے غلام رکھا ہو ۔
در حقیقت یہ حقیقی علماء اسلام نہیں بلکہ وہ بہروپیے ہیں کہ جنہیں پاکستان اپنی قبضہ گیریت کو برقرار رکھنے کیلئے عام عوام میں بحیثیت علماء شہرت دلاتا ہے تاکہ عام عوام میں اُنکی مقبولیت کے بعد اُنہی سے اپنے اس غیر اسلامی عمل کا اسلامی جواز ( جو قطعاً اسلامی نہیں ) حاصل کیا جائے اور یہ بہروپیے بنا خوفِ خدا فقط ذاتی مفادات کے تحت لاکھوں انسانوں کے استحصال و اُن کی اُس شناخت کو فنا کر نے کیلئے اپنا مجرمانہ کردار ادا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ نے ہماری پہچان کیلئے ہمیں عنایت کی ۔ ان کے ایسے دہرے معیارات سے ہی اُن کی شخصیت کا احاطہ کیا جا سکتا ہے مثلاً ہم پوری پاکستانی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو کیا یہ سوال جائز نہیں کہ یہ ہندوستان کہ جہاں پاکستان سے بھی زائد مسلمان آباد ہیں کہ جہاں صرف دہلی جیسے ایک شہر میں ہمارے مساجد کی تعداد ہزاروں ہے کہ جن میں جامع مسجد سے مماثل ہماری شاندار عبادت گاہوں کی اگر فہرست تیار کی جائے تو اسلامی تعمیرات کا ایک خزانہ محض دہلی سے ہی بر آمد ہو سکتا ہے ۔ یہ وہاں تو جہاد کی بات کرتے ہیں مگر ہمارے دوسرے ہمسایے ممالک یعنی ایران کہ جس کے دارالخلافہ یعنی تہران میں بد قسمتی سے ایک بھی سنی مسجد نہیں ، جہاں ہمارے مساجد کی تعمیر پر غیر اعلانیہ پابندی ہے ، اُس کے بر خلاف ان میں جہاد کا کوئی جنون نہیں ! ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کو اپنے مذہبی فریضے کی مکمل آزادی ہونے کے با وجود بھی ان کے وہاں جہاد کرنے کا جذبہ ختم نہیں ہوتا مگر یہی پاکستانی اُس چین کو اپنا دوست کہتے نہیں تھکتے کہ جس ملک میں سرے سے کوئی بھی مذہب اپنانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہو ، کہ جہاں لا دینیت کو سرکاری سطح پر با ضابطہ(سرکاری طورپر)تسلیم کیا جاتا ہو کہ جہاں ایک ارب انسانوں کو جبری مذہب سے دو ر رکھا جاتا ہو کہ جہاں کُل آبادی کا بیشتر ہجم لا دین لوگوں پر مشتمل ہو کہ جہاں ایک ارب لوگوں میں محض 1%مسلمان ہوں ، وہاں نہ جہاد کی بات کی جاتی ہے اور نہ وہاں اسلام پھیلانے کا کوئی منصوبہ موضوع بنتا ہے جبکہ اس کے بر عکس ان کے ہر تبلیغی کارواں کا رخ اُ س بلوچ سر زمین کی جانب ہوتا ہے کہ جہاں کی 99% آبادی ان سے صدیوں پہلے اسلام قبول کر چکی ہے ۔ کیا یہ سوال اُن کی شخصیات کو غیر معتبر نہیں بنا دیتا کہ آج جب بلوچستان اپنی غلامی کے بر خلاف آزادی کی منزلیں طے کر رہا ہے تو اُسے مسلمان ہونے کے با وجود لگاتار اسلام کا درس دیتے قومی آزادی کی اپنی تحریک سے دستبردار کیا جا رہا ہے جبکہ اُن کا پیغام اگر واقعتا اسلامی ہے تو اُن کے تبلیغی کاموں کی اشد ضرورت تو دیگر ہمسایہ ممالک میں ہے !
ان حقائق بر تبصرہ کرنے کا میرا مقصد اپنے جہادی و تبلیغی بھائیوں کو چین یا ایران کے خلاف بھڑکانا نہیں اور نہ ہی میں ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کو نظر انداز کرنے کی تلقین کر رہا ہوں بلکہ ان سوالات کا مقصد خود اُنہیں یہ احساس دلانا ہے کہ جہاد یا تبلیغ جیسے مقدس فریضے کیلئے کسی ایسے انسان کو اپنا رہبر نہ چنا جائے کہ جسے ہمارے مذہبی احساسات کو استعمال کرتے پاکستانی خفیہ اداروں کے سامنے سر خرو ہونا ہو کیونکہ جہاد و تبلیغ کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے نا کہ کسی ریاست کی استحصالی و سیاسی پالیسیوں کی تکمیل کیلئے کسی قوم کو اسکی جدوجہد سے دستبردار کرنا اور اس مد میں تو ایسے سوالات کی ایک پوری فہرست ترتیب دی جا سکتی ہے کہ جس سے اُن پاکستان نواز عالموں کی شخصیات کو مذبذب کیا جا سکتا ہے جو پاکستانی خفیہ اداروں کے احکامات پر بلوچ قوم کو اسلام کے پاک نام پر اپنے تخلیق کردہ دہرے معیارات کے تحت گمراہ کرتے قومی جدوجہد سے دستبردار کرنے پہ اکساتے ہوں ، مگر چونکہ اس تحریر کا مقصد ذاتیات پر تبصرہ کرنے کے بجائے اسلام کی اُس شخصیت سے آپ قارئین کو آشنا کرنا ہے کہ جس کے متعلق ہمارے یہاں ایک لفظ بھی نہیں کہا جاتا اور بعض دفعہ تو اس حد تک نفرت ظاہر کی جاتی ہے کہ آپ اگر کسی فلمی قسم کے پاکستانی کو یہ بتا دیں کہ بھارتی ادا کار عامر خان کا شجرہ نسب مولانا آزاد سے ملتا ہے تو وہ بھی شائد عامر خان کی فلموں کا بائیکاٹ کرتیاُسے پاکستان دشمن تصور کرے ۔ اسی لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا موضوع ایک مذہبی شخصیت پر تبصرہ کرتے بھی کسی حد تک انقلابی ہی ہے جبکہ اس عالم کا یہ اقرار تو نہایت انقلابی ہے کہ اقوام کی قومی جدوجہد بھی عین اسلامی و شرعی ہے کیونکہ اُن کے مطابق لفظ ’’اُمہؔ ‘‘ قوم نہیں بلکہ مختلف مسلم اقوام کے اتحاد کا نام ہے ۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں خود کہتے ہی کہ :’’ قرآن کے مطابق لفظ قوم ایک مذہب کو ماننے والوں کیلئے نہیں بلکہ ایک ثقافت رکھنے والوں کیلئے بھی استعمال ہوا ہے جبکہ لفظ ’’ اُمہ ؔ ‘‘ ایک مذہب کی مختلف اقوام کو مخاطب کرنے کیلئے خداوند کریم نے چنا اور اسی طرح یہ ہر قوم کا حق ہے کہ خدا کی عنایت کردہ نعمت یعنی آزادی اُسے ہر حال میں ملے کیونکہ یہ وہ بیش قیمتی نعمت ہے کہ جسے فقط مذہب کی بنیاد پر نہیں بانٹا جا سکتا ۔ ‘‘
میرا یہ لکھا اُس انسان کے متعلق ہے جو اس آفاقی سچ کو تسلیم کرنے کی جرأت رکھتا تھا کہ قومی شناخت خدا کی عنایت کردہ وہ نعمت ہے کہ جسکی توسط خدا نے ہمیں مشاہبہ اطوار عنایت کرتے ایک ثقافت کے تحت یکجا کرتے اک جداگانہ پہچان دی اور خدا کی عطا کردہ اس پہچان کے تحفظ کی جنگ قطعاً مذہبی تعلیمات کے بر عکس نہیں ، اک ایسا انسان کہ جسے کسی ظالم فوج کا خوف نہیں ، جو اپنے ذاتی مفادات کو بر طرف کرتے خالص اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر حق کو حق و نا حق کو نا حق کہنے کی جرأت رکھتا تھا کہ جس نے سامراج دوستی و انگریزوں کی پالیسیوں پر نرم رویہ رکھنے والے اُن وقتوں کے معتبر شخصیت سر سید احمد خان جیسے اہم رہنما پر بلا خوف تنقید کرنے کی جرأت رکھی ، کہ جس نے گاندھی کے پیچھے آنکھیں موند کے چلنے کو بت پرستی جیسے کفر سے تشبیہ دیتے عدم تعاون تحریک (نان کارپوریٹ موومنٹ) میں گاندھی کے دستبردار ہوجانے پر بیچ کانگریس سیشن میں اُن پر تنقید کرنے کی ہمت دکھائی ، ایسا سچا مومن کہ جب اُسے پوچھا گیا کہ مولانا ، مسلم علماء تو زیادہ تر جناح کے ساتھ ہیں تو آپ کا جواب یہی تھا کہ ’’علماء تو اکبر اعظم کے ساتھ بھی تھے کہ جنہوں نے اُس کی خاطر اسلام کے نام پر ایک نیا کوئی مذہب تخلیق کر ڈالا اور ہمارے علماؤں کی اسی انفرادی نوعیت کی کمزوریوں کے سبب ہی عالم اسلام کی اس 1300 سالوں کی تاریخ میں ما سوائے چند علماؤں کے مسلمانوں کو آج اُن کے نام تک یاد نہیں ،مگر میں مسلمان ہوتے وہی کہونگا کہ جو حق ہے ، بے شک جو سچ ہے ۔ ‘‘،،،،،،،،،،،، ؟؟

مولانا عبدالکلام آزاد،،،،،،،، نوٹ
مولانا عبدالکلام آزاد کی شخصیت واُن کی سیاست کا ہر پہلو واضح کرنے کیلئے اس مضمون میں اُن کی ایک اہم تقریر کو شامل کیاجانا لازمی سمجھا گیا البتہ یہ تقریر بصری نوعیت میں حاصل ہوئی سالہاسال پرانی ریکارڈنگ کا حصہ تھی لہٰذا ٹرانسکپشن میں سطحی کمی بیشیوں کا پیشگی اعتراف کیاجانا مناسب سمجھا گیا۔
تقریر
’’دنیا میں وہی بچتا ہے کہ جس کی بنیادیں مضبوط ہوں ۔ میں آپ کو آئندہ نقشوں کے بننے سے نہیں روکتا لیکن آل انڈیا کانگریس کی صدارت کے ان دو برسوں میں جو کوششیں میں نے کیں اور مسلمان لیڈروں نے جس طرح اُنہیں ٹکرایا اُسکے بیان کرنے کا یہ موقع تو نہیں لیکن آپ کی یاد دہانی کیلئے مجھے پھر دہرانا پڑتا ہے کہ جب میں نے مسلم لیگ کی اس پاکستانی اسکیم کی تمام تر پہلوؤں پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پورے ہندوستان کیلئے اس اسکیم کے جو بھی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کیلئے بھی یہ تجویز سخت تباہ کن ثابت ہوگی ۔ اس سے اُن کی کوئی مشکل حل ہونے کے بجائے مزید مشکلیں پیدا ہوجائینگی ۔
اول تو پاکستان کا لفظ ہی میرے نزدیک اسلامی تصورات کے خلاف ہے ۔ پیغمبر اسلام ؐ کا ارشاد ہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے تمام روحِ زمین کو میرے لئے مسجد بنا دی ‘‘
میرے مطابق اس روحِ زمین کو یوں پاک اور نا پاک میں تقسیم کرنا ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔ دوسری یہ کہ یہ پاکستان کی اسکیم ایک طرح سے مسلمانوں کی شکست کی علامت ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 10 کروڑ کے اندر ہے اور وہ اپنی زبردست تعداد کے ساتھ ایسی مذہبی و معاشرتی صفات کے حامل ہیں کہ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگیوں و پالیسیوں اور نظم و نسق کے تمام معاملات پر فیصلہ کن اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ پاکستان کی اسکیم کے ذریعے ان کی یہ ساری قوت و صلاحیت تقسیم و ضائع ہو جائے گی اور میرے نزدیک یہ بد ترین بزدلی کا نشان ہے کہ میں اپنے میراثِ پدری سے دستبردار ہو کر ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر قناعت کر لوں ۔ میں اس مسئلے کے دوسرے تمام پہلوؤں کو نظر انداز کرکے تنہا مسلم مفاد کے نقطہ نگاہ سے بھی غور کرنے کیلئے تیار ہوں اور پاکستانی اسکیم کو کسی بھی طرح سے مسلمانوں کیلئے مفید ثابت کر دیا جائے تو میں اسے قبول کر لوں گا اورد وسرے سے اسے منوانے پر اپنا پورا زور صرف کر ڈالوں گا ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم سے مسلمانوں کی اجتماع و ملکی مفاد کو زرا بھی فائد ہ نہ ہوگا اور نہ اُن کا کوئی اندیشہ دور ہو سکے گا ۔ ہاں جو تجویز اور فارمولہ میں نے تیار کیا تھا کہ جسے کامرہ مشن اور کانگریس دونوں سے ہی منظور کروالینے میں مجھے کامیابی بھی حاصل ہوئی اور جسکی روح سے تمام صوبے مکمل طور پر خود مختار قرار دے دیئے گئے تھے کہ جس میں پاکستانی اسکیم کی وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اُن نقائص سے پاک ہیں جو اُن کی اسکیم میں پائے جاتے ہیں ۔ آپ اگر جذبات سے بالا تر ہو کر اسکے ممکنہ نتائج پر غور کریں تو ہندو اکثریتی علاقوں میں کروڑوں کی تعداد میں یہ مسلمان مگر چھوٹی چھوٹی اقلیتوں کی صورت میں پورے ملک میں بکھر کر رہ گئے اور آج کے مقابلے میں آنے والے کل میں اور بھی زیادہ کمزور ہو جائیں گے ۔ جہاں اُن کے گھر بار ، بد دو باش ایک ہزار سال سے چلی آ رہی ہے اور جہاں اُنہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے مشہور و بڑے بڑے مراکز تعمیر کئے ، ہندو اکثریتی علاقوں میں بسنے والے یہ مسلمان ایک دن اچانک صبح آنکھ کھولتے ہی اپنے آپ کو اپنے وطن میں پڑوسی اور اجنبی پائیں گے ۔ صنعتی ، تعلیمی و معاشی لحاظسے پسماندہ ہونگے اور ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر ہونگے جو خالص ہندو راج بنے گی ۔ پاکستان میں اگر خواہ مکمل مسلم اکثریتی حکومت ہی قائم کیوں نہ ہو جائے اس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہر گز حل نہیں ہو سکے گا ۔ یہ دو ریاستیں ایک دوسرے کے مد مقابل ایک دوسرے کی اقلیتوں کا مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتی ۔ اس سے صرف یرغمال و انتقام کا راستہ کھلے گا ۔
میرے بھائیوں آپکو یاد ہو گا کہ وسط جون 1940 ء میں کانگریس کی صدارت سنبھالنے کے بعد جب میں نے ہندو مسلم اختلاف کے تصفیے پر بحیثیت صدر کانگریس ، مسٹر محمد علی جناح (صدر مسلم لیگ ) کو ایک تجویز بھیجی تھی کہ ہندوستان کے تمام صوبوں اور مرکز میں کسی ایک پارٹی کی وزارت کے بجائے کانگریس و مسلم لیگ پر مشتمل مخلوط وزارتیں بنائی جائیں ، لیکن مسٹر جناح نے میری تجویز یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ’’تم کو کانگریس شنوائی کی طرح کانگریس کا صدر بنا یا ہے ، اس لئے میں تم سے کسی طرح کی گفتگو نہیں کرنا چاہتا ہوں ‘‘ ۔ اور یوں برابر کی سطح پر ہندو مسلم تصفیے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا ۔ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی پہلی حکومت جو 14 ارکان پر مشتمل ہوتی اور جس میں 7 مسلمان نمائندے ہوتے اور 7 غیر مسلم نمائندے کہ جن میں ہندو صرف 2 ہوتے ، اسلام و مسلمانوں کے کون سے اہم مفاد کے پیش نظر مسٹر جناح کیلئے قابل قبول نہیں تھے ؟ کیا اس طرح مسلمانوں کو ہندوستان کی پہلی حکومت میں ایک معقول حصہ نہیں مل رہا تھا ؟
میرے بھائیوں میں آپ کو اس بات کی روشنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ جب لارڈ ول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے آخری وائس رائے مقرر ہو کر آئے اور اُنہوں نے دھیرے دھیرے سردار پٹیل ، جوہر لال نہرو و گاندھی وغیرہ جیسے کانگریسی رہنماؤں کو تقسیم کا نظریہ قبول کر لینے پر آمادہ کر لیا اور بالآخر 3 جون 1947 ء کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دینے کی تجویز کا اعلان کر دیا گیا ۔ میرے بھائیوں ، یہ اعلان دراصل نہ تو ہندوستان کے مفاد میں تھا اور نہ مسلمانوں کے مفاد میں ! اس سے صرف بر طانوی مفاد کی حفاظت مقصود تھی ، اس لئے کہ ہندوستان کی تقسیم اور مسلمان اکثریت کے صوبوں کی الگریاست قائم کر دینے سے بر طانیہ کو بر صغیر میں اپنے پاؤں ٹکانے کا موقع حاصل ہو جاتا تھا ۔ ایک ایسی ریاست جس میں مسلم لیگ کے نام سے بر طانیہ کے پسندیدہ افراد بر سرے اقتدار آ جائینگے مسقل طور پر بر طانیہ کے زیر اثر رکھی جا سکتی تھی اور اس کا اثر ہندوستان کے رویے پر بھی پڑنا لازم ہو گا ،ہندوستان جب یہ دیکھے گا کہ پاکستان پر انگریزوں کا اثر ہے تو وہ اپنے یہاں بھی انگریزوں کے مفاد کا لحاظ رکھے گا ۔ آخر کار 14 اگست 1947 ء میں ہندوستان تقسیم کر لیا گیا ۔ پاکستان و ہندوستان نامی دو آزاد ریاستیں وجود میں آئیں جو یکساں طور پر بر طانیہ کا من و یلت کی ممبر بننے پر راضی ہوگی اور پھر میرے بد ترین خدشات صحیح ثابت ہونے لگے ۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کا بد ترین دشمن بن کر قتل عام ، غارت گری اور لوٹ مار پر اتر آیا ۔ خون کی لکیروں کیساتھ دو ملکوں کی سرحدیں کھینچ جانے لگی اور افسوس یہ مسلمان تقسیم در تقسیم ہو کر رہ گئے ۔
لیکن اب کیا ہو سکتا ہے ، اگر چہ ہندوستان نے آزادی حاصل کرلی لیکن اسکا اتحاد باقی نہیں رہا ، پاکستان کے نام سے جو نئی ریاست وجود میں آئی ہے کہ جس میں بر طانیہ کے پسندیدہ افراد کا بر سرے اقتدار طبقہ وہ ہے جو بر طانوی حکومت کا پروردہ رہا ہے ۔ اس کے طرز عمل میں خدمتِ خلق و قربانی کا کبھی کوئی شائبہ نہیں رہا ہے اور صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے یہ لوگ پبلک کے کاموں میں شریک ہوتے رہے ہیں اور پاکستان کے قیام کا صرف ایک ہی نتیجہ ملا ہے کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی پوزیشن کمزور ہو کر رہ گئی ہے اور یہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان تو کمزور ہو ہی گئے ہیں ۔ یہ ہندوستان میں رہ جانے والے کروڑوں مسلمان جو ابد تک ہندوؤں کے ظلم اور انتقام کا شکار رہیں پاکستان میں بسنے والے مسلمان ان کی کوئی بھی مددنہ کرسکے گئے اور اسی طرح سے پاکستان میں بسنے والے مسلمان جس معاشرتی کمزوری و اقتصادی و سیاسی پسماندگی کا شکار رہیں گئے ، یہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان اُن کی کوئی بھی مدد نہ کر سکیں گے ۔ تو کیا یہ بات غور کرنے کی نہیں کہ تقسیم کی بنیاد ہی ہندو و مسلمان کے درمیان عداوت پہ رکھی گئی تھی تو پاکستان کے قیام سے یہ منافقت اک آہنی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کا حل اب اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے اور اسی طرح یہ دونوں ملک خوف وہراس کے تحتاپنے اپنے فوجی اخراجات بڑھاتے رہنے پر مجبور رہیں گے اور معاشی ترقی سے محروم ہوتے چلے جائیں گے ۔
میں آج اگر ملامت کروں تو کس کو کروں ! کیسے کروں اور کیونکر کروں ! اپنے بھائیوں کو ! اپنے عزیزوں کو ! کس دیوار سے سر ٹکراؤں !
آپ جانتے ہیں کہ مجھے کون سی چیز یہاں لے آئی ہے ؟ میرے لئے یہ شاہجان کی یادگار مسجد میں پہلا اجتماع نہیں ہے ، میں نے ایک زمانے میں بہت سی گرد پیش دیکھی تھی اور یہی آ کر خطاب کیا تھا ۔ جب تمہارے جسموں پر ایک میلے پن کی جگہ اسلام تھا اور تمہارے دلوں میں شک کے بجائے اعتماد تھا ۔ پھر آج ! تمہارے چہروں پہ مسکراہٹ اور دلوں کی دیوالی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار خوشی اور چند برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں ۔ تمہیں یاد ہے کہ جب میں نے تمہیں پکارا تو تم نے میری زبان کاٹ ڈالی ، میں نے قلم اُٹھا یا تو تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیئے ، میں نے چلنا چاہا تو تم نے میرے پاؤں کاٹ دیئے ، میں نے کروٹ لینی چاہی اور تم نے میری کمر توڑ دی ۔‘‘
تبصرہ
حدیث نبوی ؐ کی روشنی میں پاکستان کے وجود کو اسلامی تعلیمات کے منافی و حتیٰ کہ اسے مسلمانوں کے خلاف کفر کی ایک سازش قرار دیتے اسکے وجود کے بر خلاف معقول دلائل پیش کرنے والے عالم دین و بر صغیر میں مسلمانوں کے حقیقی رہنما مولانا عبدالکلام آزاد 11 نومبر 1888 ء میں مکہ شریف میں پیدا ہوئے ۔آپ کی والدہ ماجدہ کا سلسلۂ نسب عرب قوم سے تھا جبکہ آپ کے والد محترم ایک ایسے صوفی مولانا کی حیثیت سے جانے جاتے کہ جنکا شجرہ نسب صوفی خاندان کے اُن علماء سے تھا جو مذہبی اقدار کی سخت پاسداری کیلئے جانے جاتے ، بنیادی حوالوں سے آپ کے اجداد کا تعلق ہیرات (افغانستان) سے تھا جو سالوں پہلے انڈیا آئے۔ اُن وقتوں مغل بادشاہوں کا دور دورا ہوا کرتا تھا، آپ کے والد شیخ محمد خیرالدین جو ایک مذہبی اسکالر تھے، وہ مکہ ہجرت کرگئے جہاں انہوں نے مدینہکے ایک مشہور مذہبی اسکالر کی بیٹی سے شادی کی ۔ مکہ شریف میں ہی اس خاندان میں اُس عظیم ہستی کی ولادت ہوئی کہ جنہیں تاریخ مولانا آزاد کے نام سے یاد کرتی ہے ۔آپ کی پیدائش کے چند سال بعد آپ کا خاندان دوبارہ انڈیا (کلکتہ) تشریف لایا۔
مولانا عبدالکلام آزاد ایک ایسے آئیڈیل مذہبی شخصیت ہیں کہ جن کے سبب ہم مذہب اسلام کی اُن خوبیوں کو اُجاگر کر سکتے ہیں کہ جنہیں عالمی طاقتوں کے سیاسی مفادات و تضادات کے باعث اس خطے میں عموماً ماند رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ ایک ایسا مثالی کردار جو مذہب اسلام کی تعریف کیلئے ایک شناختی علامت کے طور پر دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کی اچھائیاں بیان کرتے بحیثیت اک قوی ثبوت و موضوع بن سکتا ہو ، آپ کی علمی قابلیت کا یہ احوال تھا کہ آپ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے ہر علمی مورچے میں شامل رہے ۔ آپ نے سیاسی شعور کی بیداری کیلئے نہ صرف مختلف رسالوں کے اجراء کو اپنی بدولت ممکن بنا یا بلکہ ہندوستان میں موجود متعدد زبانوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ایک بڑے ہجوم کو ایک منظم دستے میں بدلنے کیلئے اُن کی زبانوں کو شعوری طور سے سیکھا ۔ آپ کو پشتو ، ہندکو ، بنگالی ، اردو ، فارسی ، عربی ، ہندی و انگریزی پر کمال حاصل تھا ۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں موجود مختلف فرقوں کے مابین رواداری کا درس دینے کیلئے آپ نے اسلامی تعلیمات کے ہر فرقے کی مصلحتوں کو سمجھنے کی خاطر اُن کا بھر پور مطالعہ کیا ۔ آپ کو فقہ ، شریعت و تاریخ اسلام پر عبور ہونے کیساتھ ساتھ جدید علوم پر بھی دسترس حاصل تھی ۔ آپ در حقیقت اسلام کے اُن سچے عالموں میں سے تھے کہ جنہوں نے علم کو بنا تعصب دیکھتے اُسے حاصل کرنے والے کو سیرت نبویؐ پر چلنے والا مجاہد تصور کیا اور اس فرسودہ بحث کو درکنار کیا کہ جس کے تحت علم کو مختلف مدارج میں تقسیم کرتے اسلامی و غیر اسلامی میں تقسیم کیا جاتا ہو کیونکہ آپ کے مطابق ہم اُسے علم کہہ ہی نہیں سکتے کہ جسے غیر اسلامی کہا جا سکتا ہو یا جسے حاصل کرنے پر خدا کی ممانعت ہو ۔ آپ نے ریاضی ، جو میٹری ، الجبرا ، فلسفہ و تاریخ کیساتھ ساتھ دیگر سائنسی علوم کو خدا کی نعمت تصور کرتے نہ صرف اپنی شخصیت کو مزید نکھارا بلکہ اُن کی بدولت ہی آپ نے متعدد علمی رسالوں کے اجراء کو ممکن بنا یا اور اپنی متعدد تصانیف سے اہل علم کو بھیفیض یاب کیا ، جس میں بیشتر کا مقصد بر صغیر پر بر طانوی قبضے کے خلاف عام عوام کو سیاسی شعور دینا تھا ۔ آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بعض ایسے مقالمے بھی تحریر کئے کہ جنہیں اسلامی ادبی تحریروں کا ایک قیمتی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے ۔
مولانا آزاد ہندوستان کی سیاست میں وہ رہنما تصور کئے جاتے ہیں کہ جنہوں نے علمی مورچوں کے علاوہ عملاً بھی ہر سیاسی تحریک میں بھر پور متحرک رہتے اپنا اہم کردار ادا کیا ۔ آپ خلافت تحریک ، گاندھی کے( ستھیے گرھا )، 1919 ء کی (رولٹ ایکٹ )کے خلاف کہ جس میں انفرادی آزادی کے بعض پہلوؤں پر قدغن کی شقیں موجود تھی، جلیا والا باغ کے قتل عام کے خلاف اجتماعی تحریکوں و بر طانیہ سرکار سے عدم تعاون تحریک اور دیگر سول نا فرمانی کی تحریکوں میں صف اول کے دستوں میں کھڑے رہنما تھے ۔ آپ کی جرأ ت و سیاسی بالادگی کو دیکھتے 1923 ء میں آپکو کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا ، جس کے تحت آپ کو کانگریس کا سب سے کم عمر صدر ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ آپ نے انتھک محنت و اپنی قابلیت سے ہندوستانی قوم کو تعلیم و سماجی اصلاح کا وہ تصور پیش کیا کہ جس کی بنیاد پر ہی آپکو ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کا قلمدان سونپا گیا ۔ آپ نے بحیثیت وزیر تعلیم ہندوستان بھر میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکول میں داخلے کی نہ صرف با قاعدہ مہم کا آغاز کیا بلکہ تعلیم کی اہمیت کو اجا گر کرتے بالغ لوگوں کیلئے بھی تعلیم کے مواقع پیدا کئے ۔ آپ نے اپنے طے کر دہ قومی پروگرام کے تحت بڑی تیزی سے اسکولوں و لائبریریوں کے قیام کا آغاز کیا ۔ آپ نے قومی سیاست میں وزیر اعظم نہرو کی سوشلسٹ اقتصادی و صنعتی ماڈل کی بھر پور حمایت بھی انسانی خدمت کے اس جذبے کیساتھ کی کہ جس کے تحت نہ صرف ابتدائی تعلیم کی عالمی سطح کر بڑھایا جانا ممکن ہوا بلکہ اس کے تحت معاشرے کے ہر فرد خصوصاً عورتوں کو بھی کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے ۔ قرونِ وسطی کی دقیانوسی خیالات کو بر طرف کرتے اسلام میں موجود انسانی برابری کی اصل احساس کو فلسفہ اسلام کا اہم ستون قرار دیتے آپ نے عورتوں کیلئے با عزت معاشی مواقع پیدا کرتے نہ صرف غربت پر قابو پانے کا راستہ تلاشا بلکہ اُنہیں بہتر سہولیات فراہم کرتے اُن کا حقیقی وقار اُنہیں دینے میں بھی آپ کا کلیدی کردار قابلِ ستائشہے ۔ سماجی و معاشی دشواریوں کو دور کرتے معاشرے کو علم و خرت کے رجحانات کی طرف مائل کرنے میں مولانا صاحب کے کردار کو نہ صرف ہندوستانی معاشرے میں پذیرائی ملی بلکہ دنیا بھر میں آپکی قابلیت کو عملاً تسلیم کیا گیا اور اسی عوض 1956 میں آپکو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو نیسکو )کہ جسکا مقصد تعلیم کے ذریعے مثبت معاشرتی و ثقافتی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنا تھا ۔ اس ادارے کا صدر منتخب کیا گیا ۔مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت و انکی جدوجہد پر اگر نظر رکھی جائے تو یہ کہنا قطعاً غلط نہیں کہ وہ ایک ایسے اسکالر و دانشور تھے کہ جنہوں نے نہ صرف اپنے عقیدے پہ نکتہ چینی کرنے والے لوگوں کو سائنسی و فلسفیانہ دلائل دیتے لا جواب کر دینے کی سکت تھی بلکہ وہ ایسے سیاسی مفکر بھی تھے کہ جنہیں اپنے حاصل کر دہ بیش قیمتی علم کے تحت مستقبل میں رونما ہونے والے حالات کا قبل از ادراک ہوتا ۔ پاکستان کے قیام و ہندوستان کی آزادی کے دوران اُن کے مختلف مقالموں ، انٹرویوز و تقاریر کا اگر مطالعہ کرتے آج پاکستان کا بحیثیت ایک اسلامی ریاست جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ مولانا کا وہ اندیشہ کہ جسکے تحت پاکستان کا قیام کفر کی سازش تھی اپنی قلعی کھولتے ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے ۔ اُنہوں نے اپریل 1946 یعنی آج سے کوئی 66سال پہلے لاہور کے ایک میگزین ’’مضبوط چٹان ‘‘ کے صحافی سوریش کشمیری کو انٹرویو دیتے پاکستان کے متعلق اپنے جن خدشات کا اظہار کیا وہ آج مکمل طور سے صادق دکھائی دیتی ہیں کہ جس میں اُنہوں نے کوئی آٹھ نکاتوں پر بحث کی کہ جنکا خلاصہ کچھ یوں ہے ۔
-1 نا اہل سیاسی رہنماؤں کے باعث پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو فوجی آمریت سے سہارا دیا جائے گا کہ جیسا بیشتر مسلمان ممالک میں ہے ۔
-2 غیر ملکی یا بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے یہ ملک کبھی با وقار ہوتے اٹھ کھڑا نہ ہو پائے گا ۔
-3 ہمسایوں سے دوستانہ تعلقات نہ ہونے کے باعث متوقع جنگوں کا خطرہ ہمیشہ رہے گا ۔
-4 داخلی طور پر عدم اطمینان کیساتھ ساتھ علاقائی طور پر بھی تضادات پروان چڑھتے رہیں گے ۔
-5پاکستان کے نو دو لتیے صنعتکار قومی دولت کو لوٹنے میں ذرا بھی نہ ہچکچائیں گے۔-6 نو دولتیوں کی ایسی لوٹ مار و غریبوں کے حد درجے استحصال کے بعد اس ملک میں طبقاتی جنگ کے خطرے کو بھی نہیں ٹالا جا سکتا ۔
-7 معاشرے میں پائے جانے والی اس طرز کی کشیدگی و عدم اطمینان کو جھیلتے یہاں کے نوجوان نہ صرف نظریہ پاکستان سے مایوس ہونگے بلکہ اس مایوسی کے باعث و ہ مذہب سے بھی دوری اختیار کرینگے جو یقینی طور پر عالم اسلام کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا ۔
-8 نا اہل سیاسی رہنماؤں کی حتمی نا کامی کے بعد طویل آمریت اور پھر قرضوں کا بوجھ ، نو دولتیوں کی لوٹ کھسوٹ ، اندرونی و بیرونی انتشار میں شدت کہ جسکے سبب محب الوطنی کے جذبے میں کمی کے بعد بین الاقوامی قوتوں کیلئے یہ نہایت سہل رہے گا کہ وہ سازشوں کے ذریعے پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے چلائیں۔
یقینی طور سے بیان کردہ ان آٹھ نکاتوں میں کوئی ایک بھی ایسا نکتہ نہیں کہ جس سے انکار کیا جا سکتا ہو لہٰذا یہ بات قابل افسوس ہے کہ آج بھی اسلام کے نام سے خود کو منسوب کرتے پاکستانی علما تو درکنار ہمارے بلوچ عالم بھی پاکستان کے وجود و اُس کے دفاع کی بات کرتے نازاں ہوتے احمقانہ طور پر اس بلوچ و اسلام مخالف ریاست کے معمار و محافظ ہوتے اسلام زندہ باد کے ہی نعرے لگاتے ہیں جبکہ اُنہیں مولانا آزاد جیسے حقیقی عالم دین کے نقش قدم پر چلتے اسلام کی خدمت کرنی چاہیے اور خصوصاً ان وقتوں میں کہ جب اس ریاست نے خصوصی طور پر اُمت کی اُس قوم کو با قاعدہ کچلنے کیلئے اپنی تمام طاقت صرف کر دی کہ جس قوم کے ثقافتی اقدار و روایات اُمت کے دیگر اقوام کے ثقافتی اقدار سے زیادہ اسلامی تعلیمات کے مشاہبہ ہیں ۔ بلوچ علماؤں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ہمارے ثقافتی اقدار جو بلا شبہ ہمارے مذہبی عقیدے پر پورا اترتے ہیں ، اسلام سے زیادہ مشاہبہ ہونے کے باعث خدا و ند کریم کی نعمت ہیں جو حملہ آور ہوئے کسی بھی قومی ثقافت کی یلغار سے تباہی کے سبب فنا ہو سکتی ہیں لہٰذا اُس کا تحفظ محض قومی نہیں بلکہ ایک مذہبی فریضہ بھی ہے جسے پاکستانی خفیہ اداروں کی پیدا کردہ ان رہزنوں و نام نہاد عالموں کی باتوں میں آتے فراموش نہیں کیا جا سکتا جو دین کا لبادہ اوڑھےکردہ ان رہزنوں و نام نہاد عالموں کی باتوں میں آتے فراموش نہیں کیا جا سکتا جو دین کا لبادہ اوڑھے پاکستانی خفیہ اداروں کی بیان کر دہ تاکیدوں کو اسلامی تعلیمات سے منسوب کرنے کا گناہ کرتے ہوں ۔ اس زمرے میں ہمیں اپنی قومی جدوجہد کو جہاد کے طور سے سمجھتے ، مزید طاقت بخشتے اُس پاک ریاست ( آزاد بلوچستان ) کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا کہ جہاں قبضہ گیریت و قوموں کو محکوم کرتے اُنکا استحصال کرنے کی شیطانی خصلتوں کے بنا بھی اسلام کا جھنڈا بلند کیا جا سکتا ہو ۔
اس ضمن میں ہمیں پاکستانی خفیہ اداروں کے پیدا کردہ بہروپیوں و حقیقی علماء اسلامی کی پہچان کرنا ہو گی جو یقینی طور پر مولانا آزاد جیسی مثالی شخصیت سے موازنے پر کی جا سکتی ہے ۔ مثلاً کچھ دیر کو اگر ہم سوچیں کہ اک ایسا انسان جو محض 12 سال کی عمر میں علم کی یہ پیاس لئے خود کو محنت کی بھٹی میں تاپتا ہو کہ اُسے غزالی کی سوانح عمری لکھنی ہے جو فقط 14 سال کی عمر میں ہی ہندوستان کے نہایت قابل تعریف ادبی میگزین میں با قاعدہ سے آرٹیکل لکھتا ہو کہ جنہیں پڑھتے مولانا شبلی نعمانی جیسی شخصیت کہ جنہیں دنیا شمس العلماء یعنی ’’علم کا سورج و روشنی ‘‘ کہے ، وہ بھی متاثر ہو ں ،ایسا انسان جو 16 سال کی عمر میں اپنی علمی جہت کا ایک جز پورا کرتے کسی قابل معلم کی طرح دیگر طلبہ کو اسلام ، فلسفہ ، ریاضی و منطق پڑھاتا ہو ، ال ہلال جیسے اخبار کا خالق و قلم کار کہ جسے اپنے صحافتی معیار کی بدولت ایسی شہرت ملے کہ انگریز سرکار کی سیٹی غائب ہو اور جسکے متوقع اثرات کو دیکھتے محض 5 مہینوں کے اندر ہی ممنوعہ قرار دیا جائے ، ایسا انسان جو اپنی سیاسی جدوجہد میں زندان میں قید ہو مگر پھر بھی خدمت اسلام و علم کی چادر تھامے رہتے زندان میں قید رہنے کے با وجود بھی قرآن کا اردو ترجمہ بمعہ تفسیر نامی اپنی کتاب کی پہلی جلد لکھتے اُسے مکمل کر دے ۔ ایسا فلسفی کہ جسکی فلسفیانہ احکایتوں پر گاندھی جیسی بڑی شخصیت اُسے )شہنشاہِ علم ( کہتے اُن کا موازنہ فیشا غورث ، ارسطو و افلاطون کے پائے کے دانشوروں سے کرتے ہوں ، سیاسی جدوجہد میں آپکی دیدہ دلیری دیکھتے خود نہرو آپکو ’’میرِ کارواں ‘‘ کہتے پکاریں اور آزادی کے بعد وزیر اعظم بنتے آپکو اپنی کابینہ میں اپنے بعد اولین درجہ دیں اور ساتھ میں قومی پالیسی بناتے آپکی خاص صلح و رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دیں ، ایسا انسان جو اسلامی تعلیمات کے تحت کثیرالقومی اسلام یعنی (اُمہؔ ) کے قائل ہوتے ہوئے بھی اقوام کے وجود کو خدا تعالیٰ کی رضا کہتا مختلف اقوام کی قومی آزادی کو تسلیم کرتے خود اُن سے قربت پانے و اُنکی قومی آزادی میں حائل رکاوٹوں کو بہتر سمجھنے کی خاطر خود افغانستان ، مصر ، شام ، ترکی و عراق کا دورہ کرتے مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھتے سامراج مخالف قومی جدوجہدوں کو عین اسلامی قرار دیتے خود بھی سامراج مخالف جدوجہد کا حصہ بنتا ہو ، یا وہ عالم کہ جسکے علم سے متاثر ہوئے اُسے آزاد ہندوستان میں وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا جائے اور وہ جدید علوم کے تحت ہندوستان میں صنعت و حرفت کی ترقی کیلئے سب سے پہلا ریسرچ ادارہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھتا ہو ، وہ عالم کی جسکی علمی قابلیت و خدمات کو تسلیم کرتے آج بھی ہندوستان کی ایک ارب 20 کروڑ عوام اُس عظیم عالم کی تاریخ ولادت کو (نیشنل ایجوکیشن ڈے )یعنی قومی تعلیمی دن کے طور پر مناتی ہو ، جسکی علمی قابلیت و جدوجہد کو دیکھتے اُسے ہندوستان کے سب سے معزز شہری ایوارڈ ’’بھارت رتنا‘‘ سے نوازا جائے ، وہ انسان دوست ، خدا ترس و عظیم مسلمان مفکر کہ جسکا اصل نام ہی ’’ابو کلام ‘‘ یعنی ’’بابائے گفت یا آقا ئے گفتار ‘‘ ہو …… کیا اُس کا موازنہ ایسے انسان سے کیا جا سکتا ہے جو خود کو عالم دین کہتا ، اسلام جیسے آفاقی مذہب کو محض طہارت ، غسل و استنجے کی بے معنی بحث تک محدود رکھے ؟ کہ جسکے مطابق دینی مسائل محض عمامے کی رنگت و پائنچوں کی اونچائی اور داڑھی کی لمبائی جیسے مسائل پر محیط ہو ؟ یا ایسا مولوی جو پاکستانی خفیہ اداروں کی منصوبہ بندی کے تحت پہلے سوویت روس کو امریکہ کے سامنے زیر کرنے کی جنگ کو جہاد کا نام دیتے امریکی اتحادی بنتا ڈالر کماتا ہو اور جب پاکستانی خفیہ اداروں کے مفادات امریکہ کے بر خلاف ہوں تو تمام مجاہدین کو زر خرید فوج (دہشتگر دوں)کی مانند استعمال کرتا اُنہیں امریکہ مخالف بنا دیتا ہو ایسا مولوی کے جس کے پاس کفار کا اتحادی و کفار کا دشمن ہونے کا جواز محض ذاتی مفاد ہو ! ایسا مولوی جو اُس ریاست کو اسلامی کہتا ہو کہ جس کا اسلام پہ چلنے کا عزم امریکی امداد سے مشروط ہو کہ جب سوویت روس کے خلاف جنگ کا دور دورہ تھا تو پوری ریاستی مشینری بشمول ٹی وی پہ مذہبی پروگراموں کا سلسلہ تھا اور آج چونکہ امداد ’’جہاد نہ کرنے ‘‘ سے مشروط کی گئی ہے لہٰذا سالہ سال ٹی ویپہ عشاء کی چلنے والی اذان کو بھی جگہ نہیں دی جا رہی اور اس کے بجائے جالب و فیض جیسے اُن شاعروں کے اشعار چلائے جا رہے ہیں کہ کل تک یہ ریاست جنہیں خود غدار پکارا کرتی ! ایسا نام نہاد عالم جو اُس فوج کو اسلامی کہتا پاک سمجھے کہ جس نے بنگالی مسلمانوں کا نہ صرف نا حق خون بہا یا بلکہ زنا بالجبر جیسے گناہ کا مرتکب ہو ا ! ایسا نام نہاد مولوی جو یہ تو جانتا ہو کہ اسلام میں غلام رکھنے کی سخت ممانعت ہے مگر وہ اپنے دہرے معیار کے تحت اُس ریاست کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیتا کہ جس ظالم ریاست نے اُمت کی پوری ایک قومی یعنی بلوچ کو عرصہ دراز سے غلام رکھا ہو ۔
در حقیقت یہ حقیقی علماء اسلام نہیں بلکہ وہ بہروپیے ہیں کہ جنہیں پاکستان اپنی قبضہ گیریت کو برقرار رکھنے کیلئے عام عوام میں بحیثیت علماء شہرت دلاتا ہے تاکہ عام عوام میں اُنکی مقبولیت کے بعد اُنہی سے اپنے اس غیر اسلامی عمل کا اسلامی جواز ( جو قطعاً اسلامی نہیں ) حاصل کیا جائے اور یہ بہروپیے بنا خوفِ خدا فقط ذاتی مفادات کے تحت لاکھوں انسانوں کے استحصال و اُن کی اُس شناخت کو فنا کر نے کیلئے اپنا مجرمانہ کردار ادا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ نے ہماری پہچان کیلئے ہمیں عنایت کی ۔ ان کے ایسے دہرے معیارات سے ہی اُن کی شخصیت کا احاطہ کیا جا سکتا ہے مثلاً ہم پوری پاکستانی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو کیا یہ سوال جائز نہیں کہ یہ ہندوستان کہ جہاں پاکستان سے بھی زائد مسلمان آباد ہیں کہ جہاں صرف دہلی جیسے ایک شہر میں ہمارے مساجد کی تعداد ہزاروں ہے کہ جن میں جامع مسجد سے مماثل ہماری شاندار عبادت گاہوں کی اگر فہرست تیار کی جائے تو اسلامی تعمیرات کا ایک خزانہ محض دہلی سے ہی بر آمد ہو سکتا ہے ۔ یہ وہاں تو جہاد کی بات کرتے ہیں مگر ہمارے دوسرے ہمسایے ممالک یعنی ایران کہ جس کے دارالخلافہ یعنی تہران میں بد قسمتی سے ایک بھی سنی مسجد نہیں ، جہاں ہمارے مساجد کی تعمیر پر غیر اعلانیہ پابندی ہے ، اُس کے بر خلاف ان میں جہاد کا کوئی جنون نہیں ! ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کو اپنے مذہبی فریضے کی مکمل آزادی ہونے کے با وجود بھی ان کے وہاں جہاد کرنے کا جذبہ ختم نہیں ہوتا مگر یہی پاکستانی اُس چین کو اپنا دوست کہتے نہیں تھکتے کہ جس ملک میں سرے سے کوئی بھی مذہب اپنانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہو ، کہ جہاں لا دینیت کو سرکاری سطح پر با ضابطہ(سرکاری طورپر)تسلیم کیا جاتا ہو کہ جہاں ایک ارب انسانوں کو جبری مذہب سے دو ر رکھا جاتا ہو کہ جہاں کُل آبادی کا بیشتر ہجم لا دین لوگوں پر مشتمل ہو کہ جہاں ایک ارب لوگوں میں محض 1%مسلمان ہوں ، وہاں نہ جہاد کی بات کی جاتی ہے اور نہ وہاں اسلام پھیلانے کا کوئی منصوبہ موضوع بنتا ہے جبکہ اس کے بر عکس ان کے ہر تبلیغی کارواں کا رخ اُ س بلوچ سر زمین کی جانب ہوتا ہے کہ جہاں کی 99% آبادی ان سے صدیوں پہلے اسلام قبول کر چکی ہے ۔ کیا یہ سوال اُن کی شخصیات کو غیر معتبر نہیں بنا دیتا کہ آج جب بلوچستان اپنی غلامی کے بر خلاف آزادی کی منزلیں طے کر رہا ہے تو اُسے مسلمان ہونے کے با وجود لگاتار اسلام کا درس دیتے قومی آزادی کی اپنی تحریک سے دستبردار کیا جا رہا ہے جبکہ اُن کا پیغام اگر واقعتا اسلامی ہے تو اُن کے تبلیغی کاموں کی اشد ضرورت تو دیگر ہمسایہ ممالک میں ہے !
ان حقائق بر تبصرہ کرنے کا میرا مقصد اپنے جہادی و تبلیغی بھائیوں کو چین یا ایران کے خلاف بھڑکانا نہیں اور نہ ہی میں ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کو نظر انداز کرنے کی تلقین کر رہا ہوں بلکہ ان سوالات کا مقصد خود اُنہیں یہ احساس دلانا ہے کہ جہاد یا تبلیغ جیسے مقدس فریضے کیلئے کسی ایسے انسان کو اپنا رہبر نہ چنا جائے کہ جسے ہمارے مذہبی احساسات کو استعمال کرتے پاکستانی خفیہ اداروں کے سامنے سر خرو ہونا ہو کیونکہ جہاد و تبلیغ کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے نا کہ کسی ریاست کی استحصالی و سیاسی پالیسیوں کی تکمیل کیلئے کسی قوم کو اسکی جدوجہد سے دستبردار کرنا اور اس مد میں تو ایسے سوالات کی ایک پوری فہرست ترتیب دی جا سکتی ہے کہ جس سے اُن پاکستان نواز عالموں کی شخصیات کو مذبذب کیا جا سکتا ہے جو پاکستانی خفیہ اداروں کے احکامات پر بلوچ قوم کو اسلام کے پاک نام پر اپنے تخلیق کردہ دہرے معیارات کے تحت گمراہ کرتے قومی جدوجہد سے دستبردار کرنے پہ اکساتے ہوں ، مگر چونکہ اس تحریر کا مقصد ذاتیات پر تبصرہ کرنے کے بجائے اسلام کی اُس شخصیت سے آپ قارئین کو آشنا کرنا ہے کہ جس کے متعلق ہمارے یہاں ایک لفظ بھی نہیں کہا جاتا اور بعض دفعہ تو اس حد تک نفرت ظاہر کی جاتی ہے کہ آپ اگر کسی فلمی قسم کے پاکستانی کو یہ بتا دیں کہ بھارتی ادا کار عامر خان کا شجرہ نسب مولانا آزاد سے ملتا ہے تو وہ بھی شائد عامر خان کی فلموں کا بائیکاٹ کرتیاُسے پاکستان دشمن تصور کرے ۔ اسی لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا موضوع ایک مذہبی شخصیت پر تبصرہ کرتے بھی کسی حد تک انقلابی ہی ہے جبکہ اس عالم کا یہ اقرار تو نہایت انقلابی ہے کہ اقوام کی قومی جدوجہد بھی عین اسلامی و شرعی ہے کیونکہ اُن کے مطابق لفظ ’’اُمہؔ ‘‘ قوم نہیں بلکہ مختلف مسلم اقوام کے اتحاد کا نام ہے ۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں خود کہتے ہی کہ :’’ قرآن کے مطابق لفظ قوم ایک مذہب کو ماننے والوں کیلئے نہیں بلکہ ایک ثقافت رکھنے والوں کیلئے بھی استعمال ہوا ہے جبکہ لفظ ’’ اُمہ ؔ ‘‘ ایک مذہب کی مختلف اقوام کو مخاطب کرنے کیلئے خداوند کریم نے چنا اور اسی طرح یہ ہر قوم کا حق ہے کہ خدا کی عنایت کردہ نعمت یعنی آزادی اُسے ہر حال میں ملے کیونکہ یہ وہ بیش قیمتی نعمت ہے کہ جسے فقط مذہب کی بنیاد پر نہیں بانٹا جا سکتا ۔ ‘‘
میرا یہ لکھا اُس انسان کے متعلق ہے جو اس آفاقی سچ کو تسلیم کرنے کی جرأت رکھتا تھا کہ قومی شناخت خدا کی عنایت کردہ وہ نعمت ہے کہ جسکی توسط خدا نے ہمیں مشاہبہ اطوار عنایت کرتے ایک ثقافت کے تحت یکجا کرتے اک جداگانہ پہچان دی اور خدا کی عطا کردہ اس پہچان کے تحفظ کی جنگ قطعاً مذہبی تعلیمات کے بر عکس نہیں ، اک ایسا انسان کہ جسے کسی ظالم فوج کا خوف نہیں ، جو اپنے ذاتی مفادات کو بر طرف کرتے خالص اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر حق کو حق و نا حق کو نا حق کہنے کی جرأت رکھتا تھا کہ جس نے سامراج دوستی و انگریزوں کی پالیسیوں پر نرم رویہ رکھنے والے اُن وقتوں کے معتبر شخصیت سر سید احمد خان جیسے اہم رہنما پر بلا خوف تنقید کرنے کی جرأت رکھی ، کہ جس نے گاندھی کے پیچھے آنکھیں موند کے چلنے کو بت پرستی جیسے کفر سے تشبیہ دیتے عدم تعاون تحریک (نان کارپوریٹ موومنٹ) میں گاندھی کے دستبردار ہوجانے پر بیچ کانگریس سیشن میں اُن پر تنقید کرنے کی ہمت دکھائی ، ایسا سچا مومن کہ جب اُسے پوچھا گیا کہ مولانا ، مسلم علماء تو زیادہ تر جناح کے ساتھ ہیں تو آپ کا جواب یہی تھا کہ ’’علماء تو اکبر اعظم کے ساتھ بھی تھے کہ جنہوں نے اُس کی خاطر اسلام کے نام پر ایک نیا کوئی مذہب تخلیق کر ڈالا اور ہمارے علماؤں کی اسی انفرادی نوعیت کی کمزوریوں کے سبب ہی عالم اسلام کی اس 1300 سالوں کی تاریخ میں ما سوائے چند علماؤں کے مسلمانوں کو آج اُن کے نام تک یاد نہیں ،مگر میں مسلمان ہوتے وہی کہونگا کہ جو حق ہے ، بے شک جو سچ ہے ۔ ‘‘

No comments:

Post a Comment