Salal Baloch,Human Right violation, Freedom, sindh, Balochistan , BSO, BSO Azad, BNM, Abdul Jabbar

Saturday, May 19, 2018

کراچی میں دو بھائیوں سمیت مزید تین بلوچ طالب علم لاپتہ

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-42581422?SThisFB

کراچی میں رواں سال گمشدگی کے پہلے واقعے میں دو بھائیوں سمیت مزید تین بلوچ طالب علم لاپتہ ہوگئے ہیں۔
ممتاز ساجدی اور کامران ساجدی یونیورسٹی روڈ پر سفاری پارک کے قریب واقع مدو گوٹھ کے رہائشی ہیں۔ 

’دو پولیس موبائل اور دو نجی گاڑیاں آئیں‘ممتاز ساجدی اور کامران ساجدی کے بڑے بھائی نعیم ساجدی نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعرات کی صبح پونے چار بجے کے قریب دو پولیس موبائل اور دو نجی گاڑیاں آئیں۔

’جو پرائیوٹ لوگ تھے انھوں نے سفید شلوار قمیض پہن رکھے تھے اور ان کے چہرے پر ماسک تھے۔ انھوں نے نام پوچھا میں نے بتایا کہ محمد نعیم۔ پھر انھوں نے معلوم کیا کہ کتنے بھائی ہیں انھیں بلاؤ۔ میرے تین بھائی گھر میں موجود تھے میں نے انھیں بلایا۔ انھوں نے شناختی کارڈ چیک کیے اور پوچھا کہ یہاں اور کون رہتا ہے میں نے کہا کہ میرا گھر سنگل سٹوری ہے یہاں صرف میرا خاندان ہی رہتا ہے۔‘
عیم ساجدی کے مطابق سادہ لباس میں ملبوس اہلکار نے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد اپنے ساتھی سے بات کی اور دونوں بھائیوں ممتاز اور کامران کو موبائل میں ڈال کر لے گئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انھیں کیوں لے کر جا رہے ہو تاہم انھوں نے کچھ نہیں بتایا۔
ممتاز ساجدی کراچی یونیورسٹی کے شعبے بین الاقوامی تعلقات میں آخری سال کے طالب علم ہیں جبکہ کامران نے حال ہی میں بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا ہے اور یہاں مزید تعلیم جاری رکھنے کے لیے آئے تھے۔

’کچھ اچھا ہوجائے‘

ممتاز کے بھائی نعیم ساجدی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے خود بھی جامعہ کراچی سے بی بی اے کیا ہے اور کراچی میں گذشتہ 10 سالوں سے مقیم ہیں۔ ’ممتاز 2007 سے میرے ساتھ ہے اس نے انٹر بھی یہیں سے ہی کیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث رہا ہے مجھے ایسا نہ تو پتہ اور نہ ہی لگتا ہے۔‘
اہل خانہ کے مطابق دونوں بھائی طبی طور پر کمزور ہیں۔ کامران کم سنتا ہے اور اس کی نظر بھی کمزور ہے جبکہ ممتاز وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے۔
نعیم ساجدی کا کہنا ہے کہ انھوں نے گلستان جوہر تھانے میں واقعے کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے درخواست دی تھی۔ تاہم پولیس نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ 24 گھنٹے بعد آنا جس کے بعد وہ دوبارہ تھانے نہیں گئے بس انتظار کر رہے ہیں کہ ’کچھ اچھا ہوجائے‘۔

No comments:

Post a Comment