Salal Baloch,Human Right violation, Freedom, sindh, Balochistan , BSO, BSO Azad, BNM, Abdul Jabbar

Tuesday, May 22, 2018

‎حقیقی قیادت کی خلاء اور کیڈر کی ذمہ داریاں – حکیم واڈیلہ۔

حقیقی قیادت کی خلاء اور کیڈر کی ذمہ داریاں – حکیم واڈیلہ۔

ہمارے شہید قائد واجہ غلام محمد بلوچ ایک کامل، عظیم الشان انسان اور باوقار و دلیر رہنما تھے۔ واجہ شہید قائد کبھی تاویلیں پیش نہیں کرتے، بہانے بازیاں نہیں کیں، ان کا ہر اقدام بلوچ قومی آزادی کو مستحکم کرتا رہا۔ تاریخ رقم کرنے والے ہمارے اس عظیم قائد نے دن رات ایک کردیئے۔ ان کا جوش و جذبہ اتنا ولولہ انگیز تھا، جس نے تحریک کو بام عروج تک پہنچادیا۔ شہید قائد کی کرشماتی شخصیت انہیں بلوچ قوم کے دلوں کا دھڑکن بنادیا۔ تاریخ میں پہلی بار قدرت نے بلوچ قوم کو ایک ایسا رہنما فراہم کیا جو خود بھی عام عوام سے ابھر کر سامنے آیا تھا۔ واجہ شہید قائد کوئی سردار و نواب نہیں تھے، اسی لیئے بلوچ قوم کے درد و دکھ کو بہت زیادہ جانتے تھے اور محسوس کرتے تھے۔ واجہ شہید قائد کی شبانہ روز جدجہد نے تھوڑے ہی عرصے میں بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے ہر فرت کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا۔ بلوچ نیشنل فرنٹ کو تشکیل دیکر تمام آزادی پسند پارٹیوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر یکجا کیا۔ شہید قائد کی یہ آرزو تھی کہ بلوچ نیشنل فرنٹ آگے چل کر ایک سنگل ماس پارٹی کی شکل اختیار کرے، یہ تھے ہمارے شہید قائد جو تحریک کو ٹکڑیوں میں نہیں بانٹنا چاہتے تھے، بلکہ تحریک کی مظبوطی چاہتے تھے۔ واجہ شہید قائد تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے اور کارکنوں پر زور دیتے تھے کہ سوالات کریں۔ سوالات و تنقید کے بغیر تحریک میں نیا پن پیدا نہیں ہوگا۔ حتیٰ کہ بعض اوقات واجہ شہید کے ذات پر بھی تنقید ہوتی اور ہمارے قائد اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ تنقید سہہ جاتے تھے۔ آپ نے کبھی بھی تحریک سے وابسطہ کسی بھی شخص کو غدار اور دشمن کا خطاب نہیں دیا۔

آیئے ایک اور عظیم ہستی کی طرف اور یہ ہستی ہیں معلم آزادی واجہ شہید قندیل( استاد صباء دشتیاری) جو تحریک آزادی کے یونیورسٹی تھے۔ شہید استاد نے تحریک آزادی میں عملی کردار ادا کرکے نام نہاد دانشوروں کی دھجیاں اڑادیں۔ یہ نام نہاد دانشور تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ ادیبوں اور دانشوروں کا سیاست سے کیا کام۔ دراصل یہ بات کرتے ہوئے بھی وہ سیاست کررہے ہوتے ہیں لیکن ان جاہلوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہوتا۔ عظیم استاد اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ “میری قوم حالتِ جنگ میں ہے اور میں بیٹھکر شعر و شاعری کی محفلیں سجاؤں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔” عظیم استاد نے اپنی جان کا نذرانہ دیکر ان منافقوں کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کردیا، جو خود کو بڑے زبان دوست اور بلوچی زبان کے اسکالر کہتے اور باتیں ایسے کرتے جیسے ساری قوم کا درد ان ہی کے دل میں ہے، لیکن عمل کا وقت آتا ہے تو بھاگ جاتے اور بہانے بازیاں کرتے ہیں۔ ان نام نہاد دانشوروں کو یہ تک معلوم نہیں کہ عظیم استاد نے شعوری طور پر تحریک میں شامل ہوکر اپنا قومی اور تاریخی فرض ادا کردیا اور تاریخ میں امر ہوگئے۔


No comments:

Post a Comment