Salal Baloch,Human Right violation, Freedom, sindh, Balochistan , BSO, BSO Azad, BNM, Abdul Jabbar

Monday, May 28, 2018

WSC hunger strike in front of Pakistan High Commission London for support of struggle against Enforced Disappearce

WSC hunger strike in front of Pakistan High Commission London for support of struggle against Enforced Disappearce-
ورلڊ سنڌي ڪانگريس سنڌ ۾ جاري جبري گمشدگي ۽ سنڌي نياڻين جي تذليل خلاف لنڊن ۾ پاڪستان هاءِ ڪميشن جي سامهون ھڪ ڏينهن جي بک هڙتال-

Sana Chandio address on Hunger Camp of missing persons



Sindhi Nation hold rally against enforce disappearances .

HYDERBAAD: Nationalist activists along with writers, intellectuals and activists of various civil society organisations joined in a rally organised by the Human Rights Coordination Committee (HRCC) to express solidarity with the Youth Action Committee (YAC) in its protest against alleged enforced disappearances of more than 150 political, nationalist and other activists in Sindh.                     https://www.dawn.com/news/1410379/nationalist-groups-rights-bodies-hold-joint-rally-against-enforced-disappearances
The rally started from the old (Sindh University) campus locality and culminated outside the local press club, where the 72-hour hunger strike observed under the auspices of the YAC ended on Saturday evening.
Organisers of the rally, Women Action Forum (WAF) activist Amar Sindhu, Jami Chandio and others, spoke to the participants and demanded an end to the alleged enforced disappearances and extrajudicial killing of such activists. Human Rights Commission of Pakistan (HRCP) leader Dr Ashothama also took part in the rally.
The participants called for producing all “victims of enforced disappearance” in courts of law irrespective of their ethnic and political affiliation. They said that the missing persons should be provide an opportunity to explain their position.Leaders of the protesters stressed that cases of extrajudicial killing must be investigated fairly by those persons whose integrity was beyond reproach. They also called for implementing recommendations of the apex court regarding missing persons.


Tuesday, May 22, 2018

‎مسنگ پرسن آف سندھ کے ہڑتالی کیمپ پر حملہ انسانی اقدار پر حملہ ہے :بی این ایم۔

مسنگ پرسن آف سندھ کے ہڑتالی کیمپ پر حملہ انسانی اقدار پر حملہ ہے :بی این ایم۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کی مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں پاکستانی عسکری اداروں کی وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کے کیمپ پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسے شدت پسند ریاست مظلوم عوام کی پر امن جدوجہد کو بھی برداشت نہیں کرتی ہے۔ پاکستان کی سندھ دھرتی پر قبضہ ، سندھی قوم کی نسل کشی، وسائل کی لوٹ گھسوٹ ، سندھی ثقافت پر یلغار کے بعد اب سندھی مائیں ، بہنیں پاکستانی خفیہ جیلوں میں قید اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے آوازاْٹھارہے ہیں ، انتہا پسند ریاست کے عسکری ادارے ان معصوم آوازوں کو دبانے کے لیے بھی طاقت کا استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان اپنے انتہاپسندانہ نظریے کے بنیاد پر مظلوم بلوچ، سندھی، پختونوں کی نہ صرف زمین پر قابض ہے بلکہ ان اقوام کی نسل کشی کرکے ان کو نیست و نابود کرنے کی بھی کوشش کررہا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ آج بلوچ ، سندھی ، پختون اور مہاجر مسنگ پرنسز کا مسئلہ اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ ، سندھی ، پختون اور مہاجر قوم کے نوجوان پاکستان کے خفیہ جیلوں میں قید ہے ،ہزاروں مسنگ پرسنز کی مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ہزاروں گھروں کے چراغ بھجا دیے گئے ہیں ، ہزاروں مائیں، بہنیں اپنے پیاروں کی راہ تھکتے رہتے ہیں لیکن اب پاکستان اپنے پیاروں کے غم میں نڈھال بوڑھی ماؤں اور معصوم بہنوں پر بھی اپنی طاقت کا استعمال کررہا ہے۔ پاکستان ان اقوام پر اپنی حکمرانی کو طویل دینے کے لیے اپنے خلاف اَٹھنے والے آوازوں کو طاقت کے ذریعے دبارہا ہے ،لیکن انقلابی تاریخ سے نابلد پاکستان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ ان آوازوں کو دبانے سے یہ دب نہیں جاتے بلکہ مزید قوت کے ساتھ سر اْٹھاتے ہیں آج بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد زندہ مثال ہے گذشتہ ستر سالوں سے پاکستان اپنی تمام تر طاقت و حربوں کو استعمال کرنے کے باوجود بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو ختم نہیں کرسکا ہے۔ پاکستان جس طرح بلوچ ، سندھی اور پختونوں پر مظالم کررہا ہے اس کے ردعمل میں بلوچ ، سندھی اور پختونوں کی جدوجہد مزید قوت کے ساتھ ابھر رہا ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ اپنے قومی حقوق اور پاکستانی مظالم کے خلاف سندھی اور پختونوں کی جانب سے آواز اْٹھانا انتہائی نیک شگون ہے۔ آج وقت اور حالات کے تقاضے یہی ہے کہ پاکستانی جبر کے شکار محکوم اقوام مزید قوت کے ساتھ اپنی آواز اْٹھائے اور مشترکہ دشمن کے خلاف اپنی صفوں میں ہم آہنگی پیدا کریں۔بلوچ ، پختون اور سندھی اقوام کو ماضی کے تمام تجربات کو سامنے رکھنا چاہیے کیونکہ پاکستان محکوم اقوام کی جدوجہد کو کاوئنٹر کرنے کے لیے اپنے پیدا کردہ مذہبی ، سیاسی اور قبائلی گماشتوں کو استعمال میں لاتا ہے۔

ترجمان نے مزید کہاکہ وائس فارمسنگ پرسنز آف سندھ کے بھوک ہڑتالی کیمپ پر پہلے دن چڑھائی کرکے تشددکا راستہ اپنا پاکستان کی سندھی سمیت تمام مظلوموں اورمحکوموں کے پرامن جدوجہدسے خائف ہونے کی علامت ہے آج وقت کا تقاضا یہی ہے کہ بلوچ ، پختون اورسندھی اقوام اپنے وسیع قومی مفادات کے لئے مشترکہ جدوجہد جانب بڑھیں ،خطے کے مظلوم اور محکوم اقوام کے قیادت کے ضروری ہے پاکستانی ریاست سے نجات پانے اور اپنے قومی آزادی کے لئے لائحہ عمل کا تعین کریں۔

‎حقیقی قیادت کی خلاء اور کیڈر کی ذمہ داریاں – حکیم واڈیلہ۔

حقیقی قیادت کی خلاء اور کیڈر کی ذمہ داریاں – حکیم واڈیلہ۔

ہمارے شہید قائد واجہ غلام محمد بلوچ ایک کامل، عظیم الشان انسان اور باوقار و دلیر رہنما تھے۔ واجہ شہید قائد کبھی تاویلیں پیش نہیں کرتے، بہانے بازیاں نہیں کیں، ان کا ہر اقدام بلوچ قومی آزادی کو مستحکم کرتا رہا۔ تاریخ رقم کرنے والے ہمارے اس عظیم قائد نے دن رات ایک کردیئے۔ ان کا جوش و جذبہ اتنا ولولہ انگیز تھا، جس نے تحریک کو بام عروج تک پہنچادیا۔ شہید قائد کی کرشماتی شخصیت انہیں بلوچ قوم کے دلوں کا دھڑکن بنادیا۔ تاریخ میں پہلی بار قدرت نے بلوچ قوم کو ایک ایسا رہنما فراہم کیا جو خود بھی عام عوام سے ابھر کر سامنے آیا تھا۔ واجہ شہید قائد کوئی سردار و نواب نہیں تھے، اسی لیئے بلوچ قوم کے درد و دکھ کو بہت زیادہ جانتے تھے اور محسوس کرتے تھے۔ واجہ شہید قائد کی شبانہ روز جدجہد نے تھوڑے ہی عرصے میں بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے ہر فرت کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا۔ بلوچ نیشنل فرنٹ کو تشکیل دیکر تمام آزادی پسند پارٹیوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر یکجا کیا۔ شہید قائد کی یہ آرزو تھی کہ بلوچ نیشنل فرنٹ آگے چل کر ایک سنگل ماس پارٹی کی شکل اختیار کرے، یہ تھے ہمارے شہید قائد جو تحریک کو ٹکڑیوں میں نہیں بانٹنا چاہتے تھے، بلکہ تحریک کی مظبوطی چاہتے تھے۔ واجہ شہید قائد تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے اور کارکنوں پر زور دیتے تھے کہ سوالات کریں۔ سوالات و تنقید کے بغیر تحریک میں نیا پن پیدا نہیں ہوگا۔ حتیٰ کہ بعض اوقات واجہ شہید کے ذات پر بھی تنقید ہوتی اور ہمارے قائد اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ تنقید سہہ جاتے تھے۔ آپ نے کبھی بھی تحریک سے وابسطہ کسی بھی شخص کو غدار اور دشمن کا خطاب نہیں دیا۔

آیئے ایک اور عظیم ہستی کی طرف اور یہ ہستی ہیں معلم آزادی واجہ شہید قندیل( استاد صباء دشتیاری) جو تحریک آزادی کے یونیورسٹی تھے۔ شہید استاد نے تحریک آزادی میں عملی کردار ادا کرکے نام نہاد دانشوروں کی دھجیاں اڑادیں۔ یہ نام نہاد دانشور تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ ادیبوں اور دانشوروں کا سیاست سے کیا کام۔ دراصل یہ بات کرتے ہوئے بھی وہ سیاست کررہے ہوتے ہیں لیکن ان جاہلوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہوتا۔ عظیم استاد اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ “میری قوم حالتِ جنگ میں ہے اور میں بیٹھکر شعر و شاعری کی محفلیں سجاؤں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔” عظیم استاد نے اپنی جان کا نذرانہ دیکر ان منافقوں کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کردیا، جو خود کو بڑے زبان دوست اور بلوچی زبان کے اسکالر کہتے اور باتیں ایسے کرتے جیسے ساری قوم کا درد ان ہی کے دل میں ہے، لیکن عمل کا وقت آتا ہے تو بھاگ جاتے اور بہانے بازیاں کرتے ہیں۔ ان نام نہاد دانشوروں کو یہ تک معلوم نہیں کہ عظیم استاد نے شعوری طور پر تحریک میں شامل ہوکر اپنا قومی اور تاریخی فرض ادا کردیا اور تاریخ میں امر ہوگئے۔


More than 70 People dead on KarAchi Heatstroke . Very hot weather .

As temperatures soar, at least 65 people have died in different areas of Karachi from heatstroke, Faisal Edhi of the Edhi Foundation told DawnNews TV on Monday.
According to Faisal, 114 bodies were brought to the Edhi Foundation's morgues in Karachi's Korangi and Sohrab Goth areas in the past three days, out of which at least 65 had died from heatstroke. Most of the citizens who died from heatstroke were residents of Landhi and Korangi, Faisal said. 
He added that most heatstroke victims had died at their home. The ages of people who succumbed to the ongoing heatwave in Karachi varied from six to 78 years, he said."People did not get medical help on time, which resulted in their death," he said.
Highlighting the magnitude of the crisis caused by the severe heat, Faisal said that the morgue in Korangi receives around 10-11 bodies per day. However, since Saturday evening, the morgue had received 34 bodies, while the morgue in Sohrab Goth had received 30 bodies. 
Most of the victims, Faisal told DawnNews TV, had expired while going about doing daily chores. 
Attempts to independently verify Faisal Edhi's claims proved inconclusive, as some of the families who lost their loved ones attributed the deaths to pre-existing ailments or other causes while hospital sources declined to comment. 
However, Sindh Health Secretary Dr Fazlullah Pechuho rejected the notion that any of the deceased died due to heat stroke in Karachi. 
“Only doctors and hospitals can decide whether the cause of death was heat stroke or not. I categorically reject that people have died due to heat stroke in Karachi, Dr Pechuho said.
Hospitals in Karachi have not received a single heat stroke patient during the last three days, the health secretary said.
Temperatures in excess of 40 degrees Celsius are expected to persist in Karachi until May 23 as the city swelters in the grip of a heatwave.
On Sunday, the Pakistan Meteorological Department issued an alert for the city, saying that "hot to very hot weather is likely to prevail in Karachi". A maximum temperature of 44˚C was recorded at 3pm in the city the same day.
Meanwhile, Karachi mayor Waseem Akhtar urged residents to stay indoors during the day to avoid heatstroke.           https://www.dawn.com/news/1409107/at-least-65-dead-from-heatstroke-in-karachi-edhi

Monday, May 21, 2018

Pakistan can destroy Israel in 12 minutes – Pakistani General claims

Pakistan can destroy Israel in 12 minutes – Pakistani General claims

Pakistan is capable of destroying Israel in under 12 minutes, a senior army commander has said.

General Zubair Mahmood Hayat, Chairman, Joint Chiefs of Staff Committee, was quoted by AWD News, as saying,“If Israel tries to invade our sacred sites in Palestine, we will raze the Zionist regime in less than 12 minutes.”

General Mahmood Hayat is on record as saying that he was not an anti-Semetic and was candid enough to admit and acknowledge that there is a need for Pakistan to change from within first, rather than worry about what other countries thought of it.

He said that over the years, he had heard many arguments regarding the Palestine-Israel conflict, but the point that needs to be noted is that “human rights violations are rife despite Israel portraying itself as the beacon of freedom in the eyes of the international community.

“Israel would have you believe that Palestinians are all terrorists and it’s only defending its citizens from suicide bombers and Islamic extremists. The reality however is very different,”he added.

When asked whether it ‘would it be in Pakistan’s interest to recognise Israel, like countries who already have such as Egypt and Jordan?’ General Hayat said, “I would have to say no; not because of the Muslims versus Jews debate, or the ties many people have to the third most holiest site in Islam, Al-Aqsa Mosque, but based more on a human level.”

“We cannot let our names represent an apartheid regime and ethnic cleansing of Palestinian people. We should push for peace in one of the most complex conflicts of our time, and simultaneously hold Israel accountable for its actions – something which the UN repeatedly fails to do,” he said.

http://thebalochistanpost.com/2018/05/pakistan-can-destroy-israel-12-minutes-pakistani-general-claims/

Christian women activists raised the issue of persecution of minority community in the hands of Islamic fundamentalists and the misuse of blasphemy law in Pakistan during the 37th session of the Human Rights Council in Geneva.

Christian women activists raised the issue of persecution of minority community in the hands of Islamic fundamentalists and the misuse of blasphemy law in Pakistan during the 37th session of the Human Rights Council in Geneva.

Saudi Arabia: Chilling smear campaign against women’s rights defenders


In a chilling development, the Saudi Arabian authorities and government-aligned media launched a public smear campaign last night to try to discredit six prominent detained women’s rights defenders as “traitors” following their arrest this week, Amnesty International said today. 

After midnight local time, official statements in state media accused six activists and one other individual of forming a “cell”, posing a threat to state security for their “contact with foreign entities with the aim of undermining the country’s stability and social fabric”. A related hashtag describing them as “Agents of Embassies”, along with a graphic showing the six activists’ faces, have also been circulating on social media.

It is believed that the official statement refers directly to six prominent human rights defenders arrested early this week , whose names had not been publicly announced. Among them is Loujain al-Hathloul, the well-known campaigner against the ban on women drivers in Saudi Arabia.
“This chilling smear campaign is an extremely worrying development for women human rights defenders and activists in Saudi Arabia. Such blatant intimidation tactics are entirely unjustifiable,” said Samah Hadid, Amnesty International’s Middle East Director of Campaigns. Crown Prince Mohammad Bin Salman has presented himself as a ‘reformer’, but such promises fall flat amid the intensifying crackdown on dissenting voices in the kingdom. His pledges amount to very little if those who fought for the right to drive are now all behind bars for peacefully campaigning for freedom of movement and equality.

“We are calling for the immediate and unconditional release of all activists still being detained solely for their human rights work.”

Unavailability of clean drinking water negates all claims of state- BSO-Azad.

Unavailability of clean drinking water negates all claims of state- BSO-Azad.

Baloch Students Organization-Azad (BSO-A) central Spokesperson expressed deep concerns over the death of seven people and unstable health condition of several other residents of Tadanch due to polluted drinking water.

The spokesperson said that unavailability of clean drinking water in the 21st century to the people of Balochistan is the worst symbol of slavery.

‘Jahu is one the most backward areas, which lacks every need of life and the residents of this area are compelled to drink water from reservoirs of rain water which has caused different diseases,’ he said.

He added: ‘most areas of Balochistan face a crisis like situation due to military siege of the areas. Previously, people also have died of drinking polluted water, but such incidents couldn’t be revealed to the world due to lack of media and criminal role of the state of Pakistan.’

BSO-A spokesperson furthet said that there are few uncertain reports of mixing chemical in drinking water of Awaran and Mashkay too. There is no one to ask about this condition of people of Awaran, Mashkay and Jahu, and the residents of these areas suffer insecurity due to the barbarism of security forces and lack of other facilities of life.

BSO-A statement added: ‘according to residents, the water reserves in Tadanch, an area of Jahu, were not drinkable previously, but after the military operations chemical was mixed in waters reserves that has increased the death ratio greatly.’

He accused that the state military institutions are using different means to compel people to vacating their areas and resettle near the army camps. After the failure in use of threats, the military institutions once banned transfer of ration to the population and now incidents of mixing chemical in water reserves are being reported.

The central spokesperson said that the state is committing severe human rights violation for completion of its notorious aims. The international institutions should take notice of such state barbarism and play their role for the protection of the oppressed Baloch people from barbarism of Pakistani military institutions.

http://thebalochistanpost.com/2018/05/unavailability-clean-drinking-water-negates-claims-state-bso-azad/

Police in Pakistan and plainclothes ISI Intelligence operatives arrest and kidnap a Sindhi nationalist activist woman as she resists in front of the Karachi Press Club. She was protesting the dissapearence of her father and other Sindhi nationalists kidnapped by the Army.

Police in Pakistan and plainclothes ISI Intelligence operatives arrest and kidnap a Sindhi nationalist activist woman as she resists in front of the Karachi Press Club.

She was protesting the dissapearence of her father and other Sindhi nationalists kidnapped by the Army.



Sunday, May 20, 2018

‎سعودی عرب میں خواتین کارکنوں کی گرفتاریاں _______

سعودی عرب میں خواتین کارکنوں کی گرفتاریاں
________

سعودی شہزادے محمد بن سلیمان کی طرف سے اپنے ملک کو جدیدیت کی طرف لے جانے کے دعووں کے باوجود ان  کی حکومت ان  خواتین کو گرفتار کر رہی ہے جو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کر رہی ہیں۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے سعودی حکومت کے ان اقدامات کی مذمت کی ہے، جن کے تحت اس ملک میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سات سرکردہ خواتین کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم جن سات سرکردہ خواتین کو گزشتہ ہفتے گرفتار کیا گیا ہے، وہ سعودی عرب میں خواتین کے ڈرائیونگ کرنے کے حق میں بھی اپنی آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے سعودی حکام سے ان خواتین کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔


جن خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں ایمان النفجان اور لجین الحذول بھی شامل ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی مڈل ایسٹ ڈائریکٹر سارا وائٹسن کا کہنا تھا، ’’یوں لگتا ہے کہ ان کارکنوں کا واحد ’جرم‘ محمد بن سلمان کی طرف سے اجازت دینے سے پہلے خواتین کے لیے یہی مطالبہ کرنا تھا‘‘۔

سعودی عرب میں چوبیس جون سے خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ تاہم تجزیہ کاروں اور کارکنوں کے مطابق حکومت اس حوالے سے اجتماعی سرگرمیوں کو روکنا چاہتی ہے کیوں کہ اس ملک میں مذہبی قدامت پسند جدیدیت کی شدید مخالفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

گزشتہ شب حکام کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سات افراد کو غیرملکی اداروں کے ساتھ مشکوک رابطوں اور بیرون ملک دشمنوں کی مالی حمایت کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں ملزمان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی لیکن حکومت کے حمایتی آن لائن اخبار سبق کے مطابق گرفتار ہونے والی ساتوں خواتین کارکن ہیں۔

ایمان النفجان اور لجین الحذول نے سن 2016 میں اس مہم کا آغاز بھی کیا تھا کہ خواتین کے لیے ’مردانہ سرپرستی‘ کے نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ اس نظام کے تحت سعودی خواتین کو تمام اہم فیصلوں میں کسی محرم مرد رشتہ دار کی رضامندی درکار ہوتی ہے۔ لجین الحذول کو ماضی میں بھی دو مرتبہ گرفتار کیا جا چکا ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم چند خواتین کو ماضی میں بھی حکام نے مزید احتجاج کرنے سے منع کیا تھا اور جنہوں نے ان کی بات نہیں مانی ان میں سے کئی کو اب گرفتار کر لیا گیا ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خواتین کے حقوق اور اختیارات پر پہلے سے موجود عائد پابندیوں کو کم کرنے کا آغاز گذشتہ برس سے کیا جس کے تحت گاڑی چلانے کی اجازت، بغیر محرم کے سعودی عرب میں داخلے کی اجازت، تفریح کے لیے گھر کی بجائے کھیل کے میدان میں جانے اور سینما گھروں میں جانے کی اجازت شامل ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان کو ملک کے نئے ترقیاتی پلان وژن 2030 کا بانی بھی مانا جاتا ہے۔ سعودی حکومت کی کوشش ہے کہ ملک کو اقتصادی طور پر تیل پر انحصار کم کرنا پڑے۔اس ضمن میں شہزادہ سلمان نے ایک اقتصادی میگا سٹی بنانے کا اعلان بھی کیا تھا جو کہ مصر اور اردن کے سرحدی علاقے میں 500 بلین ڈالر کی مدد سے تعمیر کی جائے گی۔

‎اڄ سنڌ جي نياڻين جي بهادري , سنڌ مان خوف کي ٽوڙي ڇڏيو آهي

اڄ سنڌ جي نياڻين جي بهادري , سنڌ مان خوف کي ٽوڙي ڇڏيو آهي . سنڌياڻين کي لال سلام 
سنڌ جي اڪٽر پارٽي اڳواڻن وائس فار مسنگ پرسنس جي سورمياڻين جو ساٿ ڏئي رهيا آهن , رهيل پارٽي اڳواڻن کي به هنن سورمياڻين جو ساٿ ڏيڻ کپي .


They are public servant and how they treat to treat public .thay totally terrorism . State terrorism.

They are public servant and how they treat to treat public .thay totally terrorism . State terrorism.

state atrocities on Camp For Sindhi’s Missing Person was attacked by Pakistani security forces . at is shameful act of Pakistani security forces .

state atrocities on Camp For Sindhi’s Missing Person was attacked by Pakistani security forces . at is shameful act of Pakistani security forces .

All sindhies should protest against shamful act Pakistani security forces.

All Sindhis should wake up . Sindhis should protest against state atrocities  , the whole nation together for there human right!! today attacked the press club on Daughter of Sindh  Sassi Lohar and others that is clear the violence of State Institutions, who attacked peaceful Hunger strike for Sindh's Missing Person who abducted by security Forces of Pakistan and Pakistan security forces tore her clothes child of Sindh's , That is shameful act of Pakistani security forcea and they arrested Political workers .

سندھ کے لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتال کیمپ پر پولیس کا حملہ کراچی پریس کلب کے باہر سندھ سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین اور سیاسی کارکنوں کے بھوک ہڑتال کیمپ پر پولیس کا حملہ

سندھ کے لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتال کیمپ پر پولیس کا حملہ

کراچی پریس کلب کے باہر سندھ سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین اور سیاسی کارکنوں کے بھوک ہڑتال کیمپ پر پولیس کا حملہ

کراچی پریس کلب کے باہر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیئے وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی جانب سے لگائی گئی بھوک ہڑتالی کیمپ پر پولیس نے حملہ کردیا-

سندھ پولیس نے سورٹھ لوہار، سسی لوہار، نیلم آریجو، سارنگ جویو اور متعدد افراد کو تشدد نشانہ بنانے کے بعد اپنے ساتھ لے گئے۔

منٽن جي اها سچائي ضرور ٻڌندا مولانا ابوالڪلام آزاد اها تقرير 1947 شاه جهان مسجد ۾ ڪئي هئي جنهن ۾ مولانا ,مسلم ليگ جي جدا ملڪ جي اسڪيم کي اسلام جي روح جي خلاف قرار ڏيندي چيو ته مسلم ليگ انگريزن جي غلامي ڪندي ننڍي کنڊ جي مسلمانن کي ورهائي ڇڏيو جيڪي قيامت تائين بي يارو مددگار محتاج ڪمزور ٿي ويا.

منٽن جي اها سچائي ضرور ٻڌندا 
مولانا ابوالڪلام آزاد اها تقرير 1947 شاه جهان مThat truth will definitely be heard
Maulana Abul Kalam Azad, this was done in the speech at Shah Jahan Mosque in 1947, in which Maulana, the Muslim League of India, declared against the spirit of Islam against the spirit of Islam, said that the Musligue seperated the Muslims divided, slaverying the British, The helpers are weak, they must surely hear that it is a historical fact !!
سجد ۾ ڪئي هئي جنهن ۾ مولانا ,مسلم ليگ جي جدا ملڪ جي اسڪيم کي اسلام جي روح جي خلاف قرار ڏيندي چيو ته مسلم ليگ انگريزن جي غلامي ڪندي ننڍي کنڊ جي مسلمانن کي ورهائي ڇڏيو جيڪي قيامت تائين بي يارو مددگار محتاج ڪمزور ٿي ويا... ضرور ٻڌندا هي هڪ تاريخي سچ آهي !! Int speach of Mullana Abu Kalam azad historical speach on 1947 at Shah Jahan mosque .English after 100 year role in subcontent they divide India . Pakistan is against people of subcontinent because English decide India .مولانا ابوالکلام   آزاد  کی  1947  میں پاکستان کے متعلق  کی  گئ  پیش  گوئی لفظ   لفظ  سچ ثابت ہوئی     ..
 خود سن لیں
. اس  بندے کی دور اندیشی کو  سلام  

 
.

20 مئي ڪراچي پريس ڪلب..نياڻين جي اڳواڻي ۾ شروع ٿيندڙ ٽن ڏينهن واري احتجاج ۾ وڌ کان وڌ شريڪ ٿي سنڌ دوستي جو ثبوت ڏيو..

May 20 مئي ڪراچي پريس ڪلب ...
ڌرتي ڌڻين جي پراسرار گمشدگين خلاف پريس ڪلب ڪراچي آڏو نياڻين جي اڳواڻي ۾ شروع ٿيندڙ ٽن ڏينهن واري احتجاج ۾ وڌ کان وڌ شريڪ ٿي سنڌ دوستي جو ثبوت ڏيو..

Saturday, May 19, 2018

This was Imran Khan!

This was Imran Khan a few years ago condemning the role of Pakistan Military and intelligence agencies manipulating politicians as puppets..

Today, he is playing the very role of puppet that he condemned.

بلوچستان کی 85 فیصد سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، آلودہ پانی پینے کی وجہ سے لوگ بہت سے خطرناک بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، ج

ٹڑانچ – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ۔
Salam
بلوچستان کی 85 فیصد سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، آلودہ پانی پینے کی وجہ سے لوگ بہت سے خطرناک بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، جن میں نساء، گیسٹروٹینٹائٹس، ٹائیفائڈ، کرائٹساسیسڈڈیڈیم انفیکشن، گیریڈیاس، آنت کے کیڑے اور ہیپاٹائٹس وغیرہ شامل ہیں۔ ان بیماریوں کی وجہ سے روزانہ بلوچستان میں کئی جانیں ضائع ہوتی ہیں، خاص طور پر ان بیماریوں سے بچوں کی اموات میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

زندگی کی تمام سہولیات سے محروم ٹڑانچ بھی اپنی پیاس بجھانے، اسی آلودہ پانی کا شکار ہوچکا ہے۔ علاقے میں پانی کا کوئی انتظام سرے سے موجود نہیں ہے، پورے علاقے کے مکین بارش کے جوہڑوں میں جمع شدہ پانی استعمال کرتے ہیں، ایک ہی جوہڑکا پانی لوگ اورجانور استعمال کرتے ہیں۔ اتفاق سے یہ علاقہ ساڑھے پانچ سو ووٹ لیکر وزیر اعلیٰ بننے والے عبدالقدوس بزنجو کا حلقہ انتخاب بھی ہے لیکن یہاں ابتک واحد ناکافی مدد محض ایدھی فاونڈیشن کی طرف سے ہی پہنچی ہے۔ اب تو خدشہ یہ ہے کہ ہلاکتیں بڑھیں گی، اس سے بھی بڑا خدشہ یہ ہے کہ ٹڑانچ بلوچستان کا واحد دور دراز علاقہ نہیں جہاں لوگ زہریلا پانی پینے سے مررہے ہیں، آواران و مشکے اور گردو نواح سے اور بھی ایسی غیر مصدقہ خبریں موصول ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔

کیا بلوچستان کا پرانا مسئلہ پسماندگی، اپنے وسائل پر بے اختیارگی اور آلودہ پانی ٹڑانچ واقعے کا سبب ہے؟ یا کوئی اور وجہ بھی ہوسکتا ہے؟ بلوچ سیاسی حلقوں میں ایک بہت ہی بھیانک الزام گردش کررہی ہے کہ اس علاقے کا پانی راتوں رات خراب نہیں ہوا، بلکہ ایک دانستہ عمل کے تحت علاقہ خالی کروایا جارہا ہے، علاقائی لوگ بھی دبے دبے الفاظ میں شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ ان قیاسات و گمان میں کتنی حقیقت ہے؟

http://thebalochistanpost.com/2018/05/%d9%b9%da%91%d8%a7%d9%86%da%86-%d8%af%db%8c-%d8%a8%d9%84%d9%88%da%86%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d9%be%d9%88%d8%b3%d9%b9-%d8%b1%d9%be%d9%88%d8%b1%d9%b9/

سنڌ اسيمبلي: نصرت سحر ڊپٽي اسپيڪر کي جوتو ڏيکاري ڇڏيو، ايوان مان نيڪالي

 ويب ڊيسڪ ) سنڌ اسيمبليءَ ۾ مسلم ليگ فنڪشنل  جي ميمبر نصرت سحر عباسي ڊپٽي اسپيڪر شهلا رضا کي جوتو ڏيکاري ڇڏيو جنهن تي کيس ايوان مان هڪ ڏينهن لاءِ نيڪالي ڏني وئي. سنڌ اسيمبلي جي اجلاس ۾ ڊپٽي اسپيڪر شهلا رضا جي صدارت هيٺ اجلاس ٿيو. ممتاز جکراڻي بجيٽ تي بحث ڪري رهيو هو ته ف ليگ  ميمبر نصرت سحر عباسي تي تنقيد ڪندي چيو ته ف ليگ ميمبر گوڙ ڪندي آهي، اهو نه ٻڌائيندي آهي ته هن پ پ کان ڪيترا فائدا ورتا آهن. ممتاز جکراڻي چيو ته نصرت سحر عباسي گيانچند کان بارداڻي جون ٻوريون ورتيون، هوءَ پ پ جو کائي به الزام هڻندي آهي. ممتاز جکراڻي تي الزام تي نصرت سحر عباسي گوڙ شروع ڪري ڇڏيو. ڊپٽي اسپيڪر شهلا رضا چيو ته توهان اسان جي قيادت خلاف اهڙي قسم جا لفظ استعمال ڪنديون آهيو پر پاڻ تي ڪجهه برداشت نه ٿيون ڪيو. شهلا رضا جي ٽوڪڻ تي نصرت سحر عباسي ڪاوڙ ۾ اچي وئي ۽ پير مٿي ڪري ڊپٽي اسپيڪر کي جوتو ڏيکاريو. شهلا رضا به ڪاوڙجي پئي ۽ ايوان ۾ موجود سارجنٽ کي نصرت سحر عباسي کي اسيمبلي مان ٻاهر ڪڍڻ جو حڪم ڏنو جنهن تي سارجنٽ کيس ايوان مان ٻاهر ڪڍي ڇڏيو. هن چيو ته جيڪڏهن نصرت سحر عباسي رهي ته ايئن ايوان نه هلندو، هوءَ اڄوڪو ڏينهن ايوان مان ٻاهر رهندي، سندس پارٽي کي درخواست ڪنديس ته کيس تميز سيکاري وڃي. ڊپٽي اسپيڪر چيو ته جوتو ڪڍڻ غلطي نه پر ڏوهه آهي، جنرل ضياءَ جا پاليل ماڻهو ايوان ۾ جوتا ڏيکاري سگهن ٿا. اجلاس دوران مخالف ڌر جي اڳواڻ خواجه اظهار تقرير ڪئي ۽ ڊپٽي اسپيڪر کي نالي سان سڏيو جنهن تي شهلا رضا کيس ڇنڊ پٽي ته منهنجو نالو تميز سان وٺو شهلا شهلا نه ڪيو. ڊپٽي اسپيڪر چيو ته جيڪڏهن ڪنهن جوتو هنيو ته چوندس هائوس جي قابل ناهي، پنجن ڏينهن ۾ نهايت غلط ٻولي ايوان ۾ استعمال ڪئي وئي. ان دوران اسيمبلي ۾ شديد گوڙ ٿيو ۽ ايوان مڇي مارڪيٽ بڻجي ويو. ڊپٽي اسپيڪر ميمبرن کي بار بار خاموش رهڻ جي هدايت ڪندي رهي پر اسيمبلي ميمبرن ايوان ۾ گوڙ ڪيو.

کراچی میں دو بھائیوں سمیت مزید تین بلوچ طالب علم لاپتہ

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-42581422?SThisFB

کراچی میں رواں سال گمشدگی کے پہلے واقعے میں دو بھائیوں سمیت مزید تین بلوچ طالب علم لاپتہ ہوگئے ہیں۔
ممتاز ساجدی اور کامران ساجدی یونیورسٹی روڈ پر سفاری پارک کے قریب واقع مدو گوٹھ کے رہائشی ہیں۔ 

’دو پولیس موبائل اور دو نجی گاڑیاں آئیں‘ممتاز ساجدی اور کامران ساجدی کے بڑے بھائی نعیم ساجدی نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعرات کی صبح پونے چار بجے کے قریب دو پولیس موبائل اور دو نجی گاڑیاں آئیں۔

’جو پرائیوٹ لوگ تھے انھوں نے سفید شلوار قمیض پہن رکھے تھے اور ان کے چہرے پر ماسک تھے۔ انھوں نے نام پوچھا میں نے بتایا کہ محمد نعیم۔ پھر انھوں نے معلوم کیا کہ کتنے بھائی ہیں انھیں بلاؤ۔ میرے تین بھائی گھر میں موجود تھے میں نے انھیں بلایا۔ انھوں نے شناختی کارڈ چیک کیے اور پوچھا کہ یہاں اور کون رہتا ہے میں نے کہا کہ میرا گھر سنگل سٹوری ہے یہاں صرف میرا خاندان ہی رہتا ہے۔‘
عیم ساجدی کے مطابق سادہ لباس میں ملبوس اہلکار نے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد اپنے ساتھی سے بات کی اور دونوں بھائیوں ممتاز اور کامران کو موبائل میں ڈال کر لے گئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انھیں کیوں لے کر جا رہے ہو تاہم انھوں نے کچھ نہیں بتایا۔
ممتاز ساجدی کراچی یونیورسٹی کے شعبے بین الاقوامی تعلقات میں آخری سال کے طالب علم ہیں جبکہ کامران نے حال ہی میں بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا ہے اور یہاں مزید تعلیم جاری رکھنے کے لیے آئے تھے۔

’کچھ اچھا ہوجائے‘

ممتاز کے بھائی نعیم ساجدی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے خود بھی جامعہ کراچی سے بی بی اے کیا ہے اور کراچی میں گذشتہ 10 سالوں سے مقیم ہیں۔ ’ممتاز 2007 سے میرے ساتھ ہے اس نے انٹر بھی یہیں سے ہی کیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث رہا ہے مجھے ایسا نہ تو پتہ اور نہ ہی لگتا ہے۔‘
اہل خانہ کے مطابق دونوں بھائی طبی طور پر کمزور ہیں۔ کامران کم سنتا ہے اور اس کی نظر بھی کمزور ہے جبکہ ممتاز وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے۔
نعیم ساجدی کا کہنا ہے کہ انھوں نے گلستان جوہر تھانے میں واقعے کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے درخواست دی تھی۔ تاہم پولیس نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ 24 گھنٹے بعد آنا جس کے بعد وہ دوبارہ تھانے نہیں گئے بس انتظار کر رہے ہیں کہ ’کچھ اچھا ہوجائے‘۔

Wednesday, May 16, 2018

Human rights activists in Pakistani cyber attacks, report

Human rights activists in Pakistan face Suicide attacks, report
May 16, 2018, 12:49 am
KARACHI (Singer News) - Pakistan's volunteers working for human rights have shown that serious threats are threatened and they have started targeting targeted cyber attacks.
After 4 months of Amnesty International, it has come to inform that the social media accounts of human rights volunteers in Pakistan were hacked and their mobile and computer were harmed by spyware.
A report released in this regard, "Human Rights Watches, Digital Dangers to Human Rights Volunteers in Pakistan," was reported how the attackers fake online to harm human rights defenders in Pakistan. Identification and social media profiles, besides how they monitored and targeted cyber crime.
In this context, Sharif al-Assad Ali, director of global affairs in Amnesty International, said that "we exposed a wide network of attackers who targeted a natural and serious way to target human rights activists. Used to
He said that these attacks were made to make fraudulently fraudulent profiles to deceive volunteers and then attack workers on electronic devices with spyware, in addition to monitoring, betraying them and even They had to compromise on physical protection.
He said that the investigation found that the attackers used to use pages such as Facebook and Google to find the passwords of the affected people, and already human rights defenders face a lot of problems in Pakistan, while it The process is alarming about how their attack is being done on their tasks.
This report highlighted the case of Deep Saeeda, a famous civil society activist, who was told that a friend and social activist, Raza Muhammad Khan was sentenced to death on December 2, 2017.
After this incident Deep Saeed was demanding the release of Raza Khan and a petition filed in the Lahore High Court, after which he received suspicious messages, which expressed concerns about Raza Khan's safety. went.
Amnesty International's investigation said that a Facebook user named Deep Sadeeda from the name of Sinai Halimi constantly contacted by the Messenger and said in the introduction that she lives in Dubai and works in the United Nations.
The user who claimed the Afghan woman told Deep Saeed that she had some information regarding Raza Khan and she sent a link to her profile, which had a virus 'health agent' and if If this link was opened, their mobile could have been affected.
The report states that human rights monitoring organizations believed that this profile is fake and he said that by this, Deep Saeeda's email address was also tried to know, after which he spy on email The software has to be received.
In its investigation, Amnesty International found that the activists of human rights activists in Pakistan were targeted in similar ways and many times, such people claim to be a human rights activist.
In this context Deep Saeed told Amnesty International that whenever I open my email, I am scared, and I am feeling very bad because I am not able to continue my work.
The report states that in the past few months it was seen that journalists, bloggers, peaceful demonstrators and important people and active volunteers of the civil society faced threats, violence, and serious misconduct. Https: // dailysangar .com / home / page / 11012.html

پاکستان میں انسانی حقوق کارکنان کوسائبر حملوں کا سامناہے، رپورٹ

پاکستان میں انسانی حقوق کارکنان کوسائبر حملوں کا سامناہے، رپورٹ
May 16, 2018, 12:49 pm
کراچی(سنگر نیوز) پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں کو سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہونے کا انکشاف ہوا ہے اور انہیں باقاعدہ سائبر حملوں کی مہم کے ذریعے نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 4 ماہ کی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیک کرنے اور اسپائی ویئر کے ذریعے ان کے موبائل اور کمپیوٹر کو نقصان پہنچایا گیا۔
اس حوالے سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ ‘انسانی حقوق کی نگرانی، پاکستان میں انسانی حقوق کے رضاکاروں کو ڈیجیٹل خطرات’ میں بتایا گیا کہ کس طرح حملہ کرنے والوں نے پاکستان میں انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کو نقصان پہنچانے کے لیے جعلی آن لائن شناخت اور سوشل میڈیا پروفائل کا استعمال کیا، اس کے علاوہ کس طرح ان کی نگرانی کی اور انہیں سائبر کرائم کا نشانہ بنایا گیا۔
اس حوالے سے ایمنسٹی انٹرنشیل میں عالمی معاملات کی ڈائریکٹر شریف السید علی کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے حملہ ا?وروں کے ایک وسیع نیٹ ورک کو بے نقاب کیا جو انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے نفیس اور سنجیدہ طریقہ کار کا استعمال کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ حملہ ا?ور رضاکاروں کو دھوکا دینے کے لیے بڑی چالاکی سے جعلی پروفائل بناتے تھے اور پھر کارکنوں کی الیکٹرونک ڈیوائسز پر اسپائی ویئر سے حملہ کرتے تھے، اس کے علاوہ ان کی نگرانی کرتے، دھوکا دیتے اور یہاں تک کہ انہیں جسمانی تحفظ پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ حملہ آور متاثرہ افراد کا پاسورڈ معلوم کرنے کے لیے فیس بک اور گوگل جیسے صفحات کا استعمال کرتے تھے اور پاکستان میں پہلے ہی انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے جبکہ یہ عمل خطرے کی گھنٹی ہے کہ ان کے کاموں پر کس طرح ا?ن لائن حملہ کیا جارہا ہے۔
اس رپورٹ میں سول سوسائٹی کی ایک مشہور کارکن دیپ سعیدہ کے کیس پر روشنی ڈالی گئی، جس میں بتایا گیا کہ ان کے ایک دوست اور سماجی کارکن رضا محمد خان کو 2 دسمبر 2017 کو جبری طور لاپتہ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد دیپ سعیدہ کی جانب سے رضا خان کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا اور لاہور ہائیکورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی، جس کے بعد انہیں مشکوک پیغامات موصول ہوئے، جس میں رضا خان کے محفوظ ہونے سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشل کی تحقیقات میں بتایا گیا کہ افغان خاتون ثنا حلیمی کے نام سے ایک فیس بک صارف نے دیپ سعیدہ سے میسنجر کے ذریعے مسلسل رابطہ کیا اور تعارف میں بتایا کہ وہ دبئی میں رہتی ہے اور اقوام متحدہ میں کام کرتی ہے۔
افغان خاتون کا دعویٰ کرنے والی اس صارف نے دیپ سعیدہ کو بتایا کہ اس کے پاس رضا خان کے حوالے سے کچھ معلومات ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے اپنی پروفائل سے ایک لنک بھیجا، جس میں ایک وائرس ‘ اسٹیلتھ ایجنٹ’ موجود تھا اور اگر اس لنک کو کھولا جاتا تو ان کا موبائل متاثر ہوسکتا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے اداروں کا ماننا تھا کہ یہ پروفائل جعلی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے دیپ سعیدہ کا ای میل ایڈریس بھی جاننے کی کوشش کی گئی، جس کے بعد انہیں ای میل پر اسپائی ویئر موصول ہونے لگے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کو اپنی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ پاکستان میں موجود انسانی حقوق کے سرگرم رضاکاروں کو اسی طرح کے طریقوں سے نشانہ بنایا گیا اور کئی مرتبہ ایسے لوگوں نے خود انسانی حقوق کے کارکن ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔
اس حوالے سے دیپ سعیدہ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ ‘جب بھی میں اپنی ای میل کھولتی ہوں میں ڈر جاتی ہوں، اور میں بہت برا محسوس کر رہی ہوں کیونکہ میں اپنا کام جاری رکھنے کے قابل نہیں‘۔
رپورٹ مین بتایا گیا کہ گزشتہ کچھ ماہ میں اس بات کو دیکھا گیا کہ صحافیوں، بلاگرز، پر امن مظاہرین اور سول سوسائٹی کے اہم لوگوں اور سرگرم رضاکاروں کو دھمکیوں، پر تشدد کارروائیوں اور جمری گمشدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

Tuesday, May 15, 2018

Pakistani state and its military institutions have enforcedly disappeared hundreds of activist of our organization, and until today none of them returned safely and alive, but dozens of mutilated bodies of the abductees had been recovered

#HRCP #Amnesty #VBMP #HRW #HRCB
Pakistani state and its military institutions have enforcedly disappeared hundreds of activist of our organization, and until today none of them returned safely and alive, but dozens of mutilated bodies of the abductees had been recovered.

The lives of students and the political activists are not any how safe in Balochistan. State’s military institutions have directly put students and the political activists on their target; its clear example is state’s atrocities on BSO-Azad like democratic students organization by its military institutions.

United Nations including all international human rights institutions should take notice of the non-recovery of Baloch students leaders.

They should bring Pakistan’s military institutions to the international court of justice and should fulfill their basic responsibilities by saving lives of these young political activists.

(From: BSO_Azad page)

Pakistan activists targeted in Facebook attacks

In December 2016 Diep Saeeda, an outspoken human rights activist from the Pakistani city of Lahore, received a short message on Facebook from someone she didn't know but with whom she had a number of friends in common: "Hy dear."She didn't think much of it and never got round to replying. But the messages weren't coming from a fan of Mrs Saeeda's activism - instead they were the start of a sustained campaign of digital attacks attempting to install malware on her computer and mobile phone to spy on her and steal her data.Over the next year, she received multiple messages from the same Facebook account, apparently run by a young woman calling herself Sana Halimi, claiming to work for the United Nations.https://t.co/aR4kmzSjoG

پشتون پرندہ

پشتون پرندہ
۔۔۔۔۔۔
ابھی اس نوجوان کی عمر ہی کیا ہے؟ وہ نوجوان جو بلاول بھٹو زرداری سے بھی چھوٹا ہے۔ مگر اس کی ایک صدا پر پشاور جیسے مغرور اور مصروف شہر میں لاکھوں لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔اس کے پیچھے نہ دولت ہے اور نہ سیاست کی خاندانی میراث۔ وہ لمبے قد والا دبلا پتلا لڑکا جس کے سر پر پشتون ٹوپی اور شانوں پر قبائلی شال ہے ۔ وہ لڑکا سیاسی اور سرکاری حلقوں کے لیے بہت بڑا سوال بن گیا ہے۔ وہ کون ہے ؟ کیا چاہتا ہے؟وہ محسود لڑکا جو جنوبی وزیرستان کی بارود سے بھری ہوئی فضاؤں سے ایک زخمی پرندے کی طرح اڑتا ہوا آیا ہے۔ وہ اس ہسپانوی گیت کی طرح ہے جس میں ایک خون بہاتا ہوا پنچھی گھنے جنگلوں سے کہتا ہے کہ ’’کیا تم مجھے پناہ دوگے؟‘‘ مگر یہ پشتون پرندہ اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی قوم کے لیے امن اور آزادی چاہتا ہے!!
وہ پشتون پرندہ جو اپنے پروں جیسے پتلے اور لمبے ہاتھ لہرا کر پوری دنیا کو بتاتا ہے کہ وہ وہاں سے آیا ہے جہاں زندگی بہت دکھی ہے۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں آزاد قبائل کو زنگ آلود زنجیروں جیسے قوانین میں قید کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں ہر دوسرے گھر کا ایک فرد جوانی میں قتل ہوا۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں ماؤں کی نیند میں بھی ایک آنکھ بند اور ایک آنکھ اس بیٹے کے انتظار میں کھلی رہتی ہے جو پانچ برس قبل گھر کے سامنے اٹھایا گیا اور اب تک واپس نہیں آیا۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں پردے والی عورتوں اور پگڑی والی مردوں کو چیک پوسٹوں پر بے عزت کیا جاتا ہے۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں گھروں میں تلاشی کے دوراں پشتون روایات کو پائمال کیا جاتا ہے۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں میدانوں میں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں۔ جہاں خواب جیسے بچے کھیلتے ہوئے ہمیشہ کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں مرد درد کا اظہار نہیں کرتے اور عورتیں میڈیا کے سامنے ماتم نہیں کرتیں۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں سے نقیب اللہ محسود آیا تھا۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں ہزاروں قبروں کے درمیاں ایک قبر میں نقیب اللہ بھی سو رہا ہے۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں امن اور انصاف کا راستہ تکتے آنکھوں کی بینائی اندھیروں میں بھٹکنے لگی ہے۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں بچوں؛ بوڑھوں اور بیواہوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں جوانی جرم ہے۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں اب لوگوں نے لطیفوں پر ہنسنا چھوڑ دیا ہے۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں لوک گیتوں والے ٹپے ہونٹوں سے ’’ٹپ ٹپ ‘‘ آنسوؤں کی طرح گرتے ہیں۔
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں پاکستان کی تاریخ کا متحرک ترین منصف بھی نہیں جاتا۔
اس لیے وہ پشتون پرندہ خود وہاں سے اڑ کے آیا ہے۔ کراچی سے لیکر کوئٹہ اور اسلام آباد سے لیکر لاہور تک اس ملک کے لوگوں کو یہ بتانے کے لیے وہ وہاں سے آیا ہے جہاں لوگوں کے غموں کی کہانیاں پاک افغان بارڈر کی طرح طویل ہیں۔ راتیں ختم ہوجاتی ہیں مگر وہ باتیں ختم نہیں ہوپاتیں جن باتوں میں صرف جدائیوں کے موڑ ہیں۔ کوئی کب گیا؟ کسی کو آخری بار کب دیکھا گیا؟ کسی کا آخری فون کب آیا؟ کسی کو گئے ہوئے کتنے برس ہوگئے؟
وہ وہاں سے آیا ہے جہاں جدائی کی موسم میں یتیم بچے جلد جوان ہوجاتے ہیں!!
اور زخم پر نمک جیسی حقیقت یہ ہے کہ اس پرندے جیسے نوجوان کو اپنے فریاد بیان کرنے کی آزادی نہیں دی جارہی۔
وہ پرندہ جس نے تنہا اڑان بھری تھی؛ آج اس کے ساتھ اس جیسے پرندوں کا بہت بڑا غول ہے۔ وہ آج تنہا مسافر نہیں۔ وہ آج ایک قافلہ بن چکا ہے۔ مگر اس کے قافلے کے مسافروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ان پر پولیس کے مخصوص اسٹائل میں چھاپے مارے جاتے ہیں۔ ان کو پولیس کے مخصوص اسٹائل میں اٹھا کر موبائلوں میں پھینکا جاتا ہے۔ ان سے موبائل فون چھینے جاتے ہیں۔ ان کا ڈیٹا کاپی کیا جاتا ہے۔ انہیں ہر طرح سے حراساں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیا ہے ان لوگوں کا قصور جن کوشہروں کے سرکاری بابو جلسوں کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ اپنے اجتماعی زخم دکھانے کے لیے جس جگہ کا اعلان کرتے ہیں؛ اس میدان کو گندے پانی سے بھر دیا جاتا ہے۔
اور جب وہ کراچی کا رخ کرتا ہے تب اس کو سفر کرنے کے حق سے محروم کیا جاتا ہے
یہ سب کچھ امن امان کے نام پر کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ وہ لوگ اب تک پاکستان کے پرامن ترین لوگ ہیں۔ ان لوگوں نے کسی . گاڑی کا شیشہ نہیں توڑا۔ ان لوگوں نے کسی پلاٹ پر قبضہ نہیں کیا۔ ان لوگوں نے ایسا کچھ
نہیں کیا جس سے شہری زندگی میں دشواری پیدا ہو۔ انہوں نے اپنی طاقت دکھانے کے لیے کسی کو نہیں دکھایا۔ وہ لوگ جو بہت دور سے آئے ہیں۔ یہ لوگ جو پورے ملک میں اپنے ہم زباں اور ہمدرد تلاش کر رہے ہیں۔ یہ لوگ جو مصیبت میں آئے ہوئے پشتونوں کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں۔ یہ لوگ ان پٹھانوں کی وکالت کرنے نہیںآئے ہیں جو سرمائیدار ہیں۔ یہ لوگ وزیروں اور مشیروں اور ان پٹھانوں کے لیے حمایت کرنے کے لیے نہیں آئے جن کے پاس سرخ پاسپورٹ یا گرین کارڈ ہے۔ یہ لوگ ان زخمی پٹھانوں کی حالت بیان کرنے آئے ہیں؛ جن کو انگریزی تو کیا اردو میں بھی بات کرنا نہیں آتی۔ وہ صرف پشتو بولتے اور پشتو سمجھتے ہیں۔ وہ پشتو میں پوچھتے ہیں کہ ’’ یہ کیسی آزادی ہے؟
لوگ اب تک پوچھ رہے ہیں کہ منظور پشتین کون ہے؟ وہ منظور پشتین جو ایک غریب استاد کا بیٹا ہے۔ وہ منظور پشتین جس کے خون میں شروع سے لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ ہے۔ وہ منظور پشتین جس کے پاس بم پروف پراڈو نہیں ہے۔ وہ منظور پشتین جس کے گرد باڈی گارڈز کا لشکر نہیں ہے۔ وہ منظور پشتین جس نے ایک سماجی تنظیم بناکر سفر کی شروعات کی تھی۔ وہ منظور پشتین آج ایک تحریک میں تبدیل ہو رہا ہے۔
منظور پشتین میدان عمل میں ثابت کر رہا ہے کہ لیڈرز کو میڈیا کی لیبارٹریز میں ایجاد نہیں کیا جاتا۔ جس طرح جنگلی ہرن پہاڑوں پر کودتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں۔ جس طرح آبشاروں کا امڈتا ہوا پانی گھن گرج کرتے دریاؤں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جس طرح رات کا آخری ڈوبتا ہوا ستارہ صبح کا سورج بن کر ابھر آتا ہے۔ جس طرح اپنے باپ کے پنجوں سے چھوٹ کر شاہین ہواؤں میں پر پھیلا کر بڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح لیڈر بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح جس طرح سمندروں میں پہلے تحرک اور پھر طوفان پیدا ہوتا ہے۔ منظور پشتین کسی حسرت کا نام نہیں۔ وہ اپنے اندر کی خاموش گہرائیوں میں بھی کسی خواہش کے ساتھ ’’کاش‘‘ لفظ نہیں جوڑتا۔ پاکستان کا ایک نوجوان آکسفورڈ سے ڈگری لینے اور برسوں سے بہترین سیاسی ٹیم ہونے کے باوجود آج تک لیڈر شپ کے ’’لام‘‘ تک نہیں پہنچ پایا اور پاکستان کا ایک نوجوان پیدل چل کر اس دور میں بھی ایک افسانوی کردار میں ڈھل رہا ہے۔
ہم کسی بھی شخص سے اصولی اختلاف رکھ سکتے ہیں۔ اختلاف تو وہ چابی سے جس سے علم کا تالا کھلتا ہے۔ ہم کسی بھی خیال اور کسی بھی بات سے اختلاف رکھنے کا حق رکھتے ہیں مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ برسوں کے بعد پشتون معاشرے میں منظور پشتین ایک امید کی طرح ابھر رہا ہے۔پشتون معاشرہ بہت آسان اور بیحد مشکل معاشرہ ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے مگر سچ یہ ہے کہ پٹھانوں کی دنیا ہمیشہ ایک نیک اور سچے انسان کے لیے اپنے دل کا ڈیرہ کھلا رکھتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پٹھانوں کو مولوی فضل الرحمان سے لیکر برگرعمران خان تک کوئی بھی سچا رہنما نہیں ملا۔ آج اگر پشتون معاشرہ منظور پشتین کے ساتھ امیدیں وابستہ کرر ہا ہے تو یہ اس طرح ہے جس طرح ایک ماں اپنے چھوٹے بچے کو گود میں لوری دیتے ہوئے بہت بڑا خواب دیکھتی ہے۔
یہ امتحان پشتون معاشرے کا نہیں ہے۔ یہ امتحان اس نوجوان کا ہے جو کوئی ڈھنگ کی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے بغیر کسی تیاری کے بہت جلدی میں بہت بڑا لیڈر بن رہا ہے۔ پشتون معاشرہ منظور پشتین کو اپنے انداز سے سمجھانے کی کوشش رہا ہے۔ پشتون معاشرہ منظور پشتین کو اس طرح سمجھا رہا ہے جس طرح علامہ اقبال نے لکھا تھا کہ:
’’انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘
کاش! منظور پشتین کے دل میں یہ بات اتر جائے کہ پشتون معاشرہ نعروں اور سیاسی نغموں سے تنگ آ چکا ہے۔ وہ اب کسی روایتی سیاسی پارٹی کے حق میں ہاتھ بلند کرنا نہیں چاہتا۔ پشتون معاشرے نے مذہبی جماعتوں کے صورت میں مولیوں اور عوامی نیشل پارٹی کی صورت میں لبرل قومپرستوں اور عمران خان کی شکل میں مغربی جمہوری رویوں کو آزمایا ہے۔ پشتون معاشرہ اس بچے کی طرح ہے جو بندر کا کھیل دیکھتے ہوئے گھر سے بہت دور نکل آتا ہے۔ جب شام کا سورج غروب ہونے لگتا ہے تب اس بچے کو گھر کی یاد شدت سے آنے لگتی ہے۔ پشتون معاشرہ اس بچے کی طرح واپس اپنے اس گھر کی طرف لوٹنا چاہتا ہے ؛ جو گھر سیمنٹ اور سریے سے نہیں بلکہ روایات سے بنا تھا۔
پشتون معاشرہ منظور پشتین کے ساتھ اپنی تاریخی روایات کی طرف لوٹنا چاہتا ہے۔ منظور پشتین کو اس روح افغان کی کی انگلی کو پکڑ کر چلنا ہوگا جو کبھی اپنے دیس اور دھرتی سے غداری نہیں کرتی۔ منظور پشتین کی چمکتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر بہت ساری منفی قوتیں اس کواپنے مفادات میں استعمال استعمال کرنے کی کوشش کریں گی۔ منظور پشتین کو ان سارے جالوں سے بچنا ہوگا۔ سیاست ایک گندہ دھندہ ہے۔ سیاست کی راہ پر ہر قدم ایک پھندہ ہے۔ منظور پشتون کو بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ کیوں کہ اس کی صورت میں ایک مظلوم معاشرے کو مثبت تبدیلی کی امید حاصل ہو رہی ہے۔ منظور پشتین کی کامیابی ایک فرد کی کامیابی نہیں ہے۔ یہ زخموں سے چور پشتون معاشرے کی کامیابی ہوگی۔ منظور پشتین کا سفر آسان نہیں بہت کٹھن ہے۔منظور پشتین کو حقیقی آزادی کی حاصلات تک چلنا ہوگا۔منظور پشتین کو اس سوال کے ساتھ منزل تک پہنچا ہوگا کہ ’’یہ کون سی آزادی ہے؟‘‘ وہ آزادی جو سیفٹی پن نکلنے کے بعد ایک گرینیڈ میں گردش کرنے لگتی ہے۔ وہ آزادی جو چیمبر میں چوٹ پڑنے کے بعد فائر ہوتی ہوئی گولی میں پیدا ہوتی ہے۔ وہ آزادی جو لالچ اور آدرش کے درمیاں کشمکش محسوس کرتی ہے۔ مگر اس سے دور بہت دور ایک آزادی اور بھی ہے۔ وہ آزادی جو وزیرستان کی ہواؤں اور وزیر ستان کی فضاؤں میں ہے۔وہ آزادی جو شاہین کی پروں میں پلتی ہے۔ وہ آزادی جو پہاڑ کی چوٹی پر لگی آگ میں جلتی ہے۔
اعجاز منگی

Monday, May 14, 2018

China is rising .

"China is rising. It's a disaster for the world, it's a catastrophe potentially for the United States. It's by far the single biggest threat we face no matter what they tell you." — Tucker Carlson Tonight

Khalil Baloch condemns the firing by Army and Death Squad on Atif Baloch’s funeral

Khalil Baloch condemns the firing by Army and Death Squad on Atif Baloch’s funeral


Khalil Baloch, the Chairman of Baloch National Movement paid rich tribute to martyr Atif Baloch and condemned the attack on his funeral ceremony that resulted in the killing of his maternal uncle, Khalil Baloch, and critically injuring several other mourners.
The BNM head stated, “This is the worst form of state terrorism in its nature; however, such incident clearly mirror the defeat of Pakistan,” in occupied Balochistan.

He added that the sacrifices of Chairman Ghulam Mohammad and his family are torch bearer for us. Waja Yousif, the brother of Chairman Ghulam Mohammad has lost his two young sons in the protection of motherland, but nothing would shaken the determination and commitment of this aged man; rather, he looks the martyrdom of two sons with great pride.

He further added, “Such commitment, determination and the philosophy of sacrifice for motherland has ignited the sense of preservation of courage among Baloch that led to open up several paths of struggle against Pakistani occupation of Balochistan,”
He asserted that Pakistan Security forces and its proxies indiscriminately opened fire on the funeral ceremony of Atif Baloch that resulted the death of Khalil Baloch, critically injuring Anwar Baloch and wounded several in the attack and such acts are the continuation of Pakistan’s notorious policy of collective punishment, and hardly such act of terrorism can be demonstrated by ISIS and Boko Haram.

Khalil Baloch stated that the attack on funeral ceremony is an eye opener for religious scholars, political leaders and political workers those who consider Pakistan as an Islamic state; hence, Pakistan is unaware about Islamic education; therefore, we appeal to all of them to join the Baloch struggle against uncivilized and brutal state of Pakistan. He exhorted that they had to learn lesson form history; today what Bangladesh is doing with the traitors and surely the lot of traitors will be similar, but within the parameter of international laws. And we would punish all the conspirators with Pakistan.

BNM Chairman said, “Pakistan is a terrorist state and it has no regards for international laws. Its aggression and inhuman policies reflect that its army suffers defeat against Baloch struggle that is why it is targeting armless civilians,”
“We are not expecting any reprieve from our enemy forces nor will ask for respite; rather, we within the ambit of international laws ask the responsible organizations to take notice of barbarities of Pakistan; in hand its army is directly committing the genocide of the Baloch nation, on the other hand, its proxy terrorist organizations have established several sanctuaries and engaged in the looting and torturing Baloch peoples,” said Khalil Baloch.
On talking about upcoming general elections in occupied Balochistan he opined, “Where Pakistan reached the peak of atrocities to pressurize Baloch people to give up their struggle for Baloch nation, elsewhere National party and other conduits are engaged in to participate in so called elections. National party and others are forcing the scattered Baloch population and IDPs to settle in near army’s camps so that to force them vote against their will in so called elections,”

“National Party is in power for five years in occupied Balochistan, however, during its tenure mass graves were discovered  in Tutak at district Khuzdar, and there was a incremental rise in military operations across Balochistan; Similarly Dr. Malik  proposed for a Swat like operation in Balochistan and used its workers for spying  that resulted in a rapid increase in mass killing of Baloch activists, and the incidents of abduction multiplied in the CM ship  of Dr. Malik,” explained he, “ however, the traitors  those who are involved  in the war crime in Balochistan would not be spared,”

Chairman Khalil Baloch also criticized the dubious role of media that has kept a willful silence in the mass genocide of Baloch nation at the hand of Pakistani forces; even the security forces of Pakistan reached that level of barbarities where they target the funeral, but media don’t bother to report, which is against the very ethics of journalism. He also added that the situation of Balochistan is not much better than Middle East but the local correspondences of international media are involved in projection of state sponsored narrative.
 ———————————————-

Khalil Baloch verurteilt die Ermordung von Army und Death Squad auf der Beerdigung von Atif Baloch

Khalil Baloch, der Vorsitzende der Baloch National Movement, lobte den Märtyrer Atif Baloch und verurteilte den Angriff auf seine Begräbnisfeier, bei der sein Onkel mütterlicherseits, Khalil Baloch, getötet und mehrere andere Trauernde verletzt wurden.
Der BNM-Chef erklärte: "Dies ist die schlimmste Form des Staatsterrorismus in seiner Natur; Ein solcher Vorfall spiegelt jedoch deutlich die Niederlage Pakistans im besetzten Belutschistan wider.

Er fügte hinzu, dass die Opfer des Vorsitzenden Ghulam Mohammad und seiner Familie Fackelträger für uns sind. Waja Yousif, der Bruder des Vorsitzenden Ghulam Mohammad, hat seine zwei jungen Söhne im Schutz des Mutterlandes verloren, aber nichts würde die Entschlossenheit und das Engagement dieses alten Mannes erschüttern; eher sieht er das Martyrium von zwei Söhnen mit großem Stolz aus.

Er fügte weiter hinzu: "Diese Hingabe, Entschlossenheit und die Philosophie des Opfers für das Mutterland haben das Gefühl der Bewahrung des Mutes unter Belutsch entfacht, das dazu geführt hat, mehrere Wege des Kampfes gegen die pakistanische Besetzung von Belutschistan zu eröffnen."
Er behauptete, dass die pakistanischen Sicherheitskräfte und ihre Stellvertreter wahllos das Feuer auf die Begräbniszeremonie von Atif Baloch eröffneten, die den Tod von Khalil Baloch zur Folge hatte, Anwar Baloch schwer verletzte und mehrere bei dem Angriff verwundete. Diese Taten sind die Fortsetzung der pakistanischen Politik der kollektiven Bestrafung und kaum ein solcher Terrorakt kann von ISIS und Boko Haram nachgewiesen werden.

Khalil Baloch erklärte, dass der Angriff auf die Trauerfeier ein Augenöffner für religiöse Gelehrte, politische Führer und politische Arbeiter ist, die Pakistan als einen islamischen Staat betrachten; Daher ist Pakistan nicht über die islamische Bildung informiert; Deshalb appellieren wir an alle, sich dem Baloch-Kampf gegen den unzivilisierten und brutalen Staat Pakistan anzuschließen. Er ermahnte sie, dass sie die Geschichte der Lektion lernen müssten; heute, was Bangladesch mit den Verrätern macht und sicherlich wird die Menge der Verräter ähnlich sein, aber im Rahmen der internationalen Gesetze. Und wir würden alle Verschwörer mit Pakistan bestrafen.

BNM-Vorsitzender sagte: "Pakistan ist ein terroristischer Staat und hat keine Rücksicht auf internationale Gesetze. Seine Aggression und unmenschliche Politik spiegelt wider, dass seine Armee eine Niederlage gegen den Kampf der Belutschen erleidet, weshalb sie sich gegen armlose Zivilisten richtet. "
"Wir erwarten keine Aufschubszeit von unseren feindlichen Streitkräften und werden nicht um Nachfrist bitten; vielmehr fordern wir im Rahmen der internationalen Gesetze die verantwortlichen Organisationen auf, die Barbareien Pakistans zu beachten; In der Hand begeht ihre Armee den Völkermord an der Baloch-Nation, andererseits haben ihre terroristischen Vertretungsorganisationen mehrere Heiligtümer errichtet und sind mit der Plünderung und Folterung von Belutschen beschäftigt ", sagte Khalil Baloch.
Als er über bevorstehende Wahlen im besetzten Belutschistan sprach, meinte er: "Wo Pakistan den Höhepunkt der Gräueltaten erreicht hat, um die Belutschen unter Druck zu setzen, um ihren Kampf für die Baloch-Nation aufzugeben, sind nationale Parteien und andere Kanäle an sogenannten Wahlen beteiligt. Die nationale Partei und andere zwingen die verstreute Bevölkerung und die Binnenflüchtlinge dazu, sich in Lagern nahe der Armee niederzulassen, um sie zu zwingen, in sogenannten Wahlen gegen ihren Willen zu stimmen. "

"Nationale Partei ist seit fünf Jahren im besetzten Belutschistan an der Macht, während ihrer Amtszeit wurden Massengräber in Tutak im Distrikt Khuzdar entdeckt, und es gab einen zunehmenden Anstieg der Militäroperationen in Belutschistan; Ähnlich schlug Dr. Malik für eine Swat-ähnliche Operation in Belutschistan vor und benutzte seine Arbeiter zur Spionage, was zu einem raschen Anstieg der Massentötung von Belutschischen Aktivisten führte, und die Entführungsfälle vervielfachten sich im CM-Schiff von Dr. Malik, "erklärte er, "Aber die Verräter, die am Kriegsverbrechen in Belutschistan beteiligt sind, würden nicht verschont bleiben",

Der Vorsitzende Khalil Baloch kritisierte auch die zweifelhafte Rolle der Medien, die im Massenmord an der Belutschischen Nation durch die pakistanischen Kräfte ein vorsätzliches Schweigen bewahrt haben; Sogar die Sicherheitskräfte Pakistans erreichten das Niveau der Barbarei, wo sie die Bestattung anvisieren, aber die Medien berichten nicht darüber, was gegen die Ethik des Journalismus verstößt. Er fügte hinzu, dass die Situation von Belutschistan nicht viel besser ist als der Nahe Osten, aber die lokalen Korrespondenzen internationaler Medien sind in die Projektion staatlich geförderter Erzählungen involviert.

https://www.thebnm.org/single-post/2018/05/03/Khalil-Baloch-condemns-the-firing-by-Army-and-Death-Squad-on-Atif-Baloch’s-funeral

‎کیا مولانا عبدالکام آزاد ک اس تقریر کو پڑھ کر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ محمد علی جناح برطانوی ایجنٹ تھے اور اس نے پاکستان بنا کر برطانوی عزائم کی تکمیل میں برطانیہ کی مدد کی ،،،،،،،،،،،،،،، ؟؟

سوچئیے ذرہ

کیا مولانا عبدالکام آزاد ک اسسوچئیے ذرہ

کیا مولانا عبدالکام آزاد ک اس تقریر کو پڑھ کر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ محمد علی جناح برطانوی ایجنٹ تھے اور اس نے پاکستان بنا کر برطانوی عزائم کی تکمیل میں برطانیہ کی مدد کی ،،،،،،،،،،،،،،، ؟؟

مولانا عبدالکلام آزاد،،،،،،،، نوٹ
مولانا عبدالکلام آزاد کی شخصیت واُن کی سیاست کا ہر پہلو واضح کرنے کیلئے اس مضمون میں اُن کی ایک اہم تقریر کو شامل کیاجانا لازمی سمجھا گیا البتہ یہ تقریر بصری نوعیت سوچئیے ذرہ

کیا مولانا عبدالکام آزاد ک اس تقریر کو پڑھ کر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ محمد علی جناح برطانوی ایجنٹ تھے اور اس نے پاکستان بنا کر برطانوی عزائم کی تکمیل میں برطانیہ کی مدد کی ،،،،،،،،،،،،،،، ؟؟

مولانا عبدالکلام آزاد،،،،،،،، نوٹ
مولانا عبدالکلام آزاد کی شخصیت واُن کی سیاست کا ہر پہلو واضح کرنے کیلئے اس مضمون میں اُن کی ایک اہم تقریر کو شامل کیاجانا لازمی سمجھا گیا البتہ یہ تقریر بصری نوعیت میں حاصل ہوئی سالہاسال پرانی ریکارڈنگ کا حصہ تھی لہٰذا ٹرانسکپشن میں سطحی کمی بیشیوں کا پیشگی اعتراف کیاجانا مناسب سمجھا گیا۔
تقریر
’’دنیا میں وہی بچتا ہے کہ جس کی بنیادیں مضبوط ہوں ۔ میں آپ کو آئندہ نقشوں کے بننے سے نہیں روکتا لیکن آل انڈیا کانگریس کی صدارت کے ان دو برسوں میں جو کوششیں میں نے کیں اور مسلمان لیڈروں نے جس طرح اُنہیں ٹکرایا اُسکے بیان کرنے کا یہ موقع تو نہیں لیکن آپ کی یاد دہانی کیلئے مجھے پھر دہرانا پڑتا ہے کہ جب میں نے مسلم لیگ کی اس پاکستانی اسکیم کی تمام تر پہلوؤں پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پورے ہندوستان کیلئے اس اسکیم کے جو بھی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کیلئے بھی یہ تجویز سخت تباہ کن ثابت ہوگی ۔ اس سے اُن کی کوئی مشکل حل ہونے کے بجائے مزید مشکلیں پیدا ہوجائینگی ۔
اول تو پاکستان کا لفظ ہی میرے نزدیک اسلامی تصورات کے خلاف ہے ۔ پیغمبر اسلام ؐ کا ارشاد ہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے تمام روحِ زمین کو میرے لئے مسجد بنا دی ‘‘
میرے مطابق اس روحِ زمین کو یوں پاک اور نا پاک میں تقسیم کرنا ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔ دوسری یہ کہ یہ پاکستان کی اسکیم ایک طرح سے مسلمانوں کی شکست کی علامت ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 10 کروڑ کے اندر ہے اور وہ اپنی زبردست تعداد کے ساتھ ایسی مذہبی و معاشرتی صفات کے حامل ہیں کہ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگیوں و پالیسیوں اور نظم و نسق کے تمام معاملات پر فیصلہ کن اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ پاکستان کی اسکیم کے ذریعے ان کی یہ ساری قوت و صلاحیت تقسیم و ضائع ہو جائے گی اور میرے نزدیک یہ بد ترین بزدلی کا نشان ہے کہ میں اپنے میراثِ پدری سے دستبردار ہو کر ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر قناعت کر لوں ۔ میں اس مسئلے کے دوسرے تمام پہلوؤں کو نظر انداز کرکے تنہا مسلم مفاد کے نقطہ نگاہ سے بھی غور کرنے کیلئے تیار ہوں اور پاکستانی اسکیم کو کسی بھی طرح سے مسلمانوں کیلئے مفید ثابت کر دیا جائے تو میں اسے قبول کر لوں گا اورد وسرے سے اسے منوانے پر اپنا پورا زور صرف کر ڈالوں گا ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم سے مسلمانوں کی اجتماع و ملکی مفاد کو زرا بھی فائد ہ نہ ہوگا اور نہ اُن کا کوئی اندیشہ دور ہو سکے گا ۔ ہاں جو تجویز اور فارمولہ میں نے تیار کیا تھا کہ جسے کامرہ مشن اور کانگریس دونوں سے ہی منظور کروالینے میں مجھے کامیابی بھی حاصل ہوئی اور جسکی روح سے تمام صوبے مکمل طور پر خود مختار قرار دے دیئے گئے تھے کہ جس میں پاکستانی اسکیم کی وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اُن نقائص سے پاک ہیں جو اُن کی اسکیم میں پائے جاتے ہیں ۔ آپ اگر جذبات سے بالا تر ہو کر اسکے ممکنہ نتائج پر غور کریں تو ہندو اکثریتی علاقوں میں کروڑوں کی تعداد میں یہ مسلمان مگر چھوٹی چھوٹی اقلیتوں کی صورت میں پورے ملک میں بکھر کر رہ گئے اور آج کے مقابلے میں آنے والے کل میں اور بھی زیادہ کمزور ہو جائیں گے ۔ جہاں اُن کے گھر بار ، بد دو باش ایک ہزار سال سے چلی آ رہی ہے اور جہاں اُنہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے مشہور و بڑے بڑے مراکز تعمیر کئے ، ہندو اکثریتی علاقوں میں بسنے والے یہ مسلمان ایک دن اچانک صبح آنکھ کھولتے ہی اپنے آپ کو اپنے وطن میں پڑوسی اور اجنبی پائیں گے ۔ صنعتی ، تعلیمی و معاشی لحاظسے پسماندہ ہونگے اور ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر ہونگے جو خالص ہندو راج بنے گی ۔ پاکستان میں اگر خواہ مکمل مسلم اکثریتی حکومت ہی قائم کیوں نہ ہو جائے اس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہر گز حل نہیں ہو سکے گا ۔ یہ دو ریاستیں ایک دوسرے کے مد مقابل ایک دوسرے کی اقلیتوں کا مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتی ۔ اس سے صرف یرغمال و انتقام کا راستہ کھلے گا ۔
میرے بھائیوں آپکو یاد ہو گا کہ وسط جون 1940 ء میں کانگریس کی صدارت سنبھالنے کے بعد جب میں نے ہندو مسلم اختلاف کے تصفیے پر بحیثیت صدر کانگریس ، مسٹر محمد علی جناح (صدر مسلم لیگ ) کو ایک تجویز بھیجی تھی کہ ہندوستان کے تمام صوبوں اور مرکز میں کسی ایک پارٹی کی وزارت کے بجائے کانگریس و مسلم لیگ پر مشتمل مخلوط وزارتیں بنائی جائیں ، لیکن مسٹر جناح نے میری تجویز یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ’’تم کو کانگریس شنوائی کی طرح کانگریس کا صدر بنا یا ہے ، اس لئے میں تم سے کسی طرح کی گفتگو نہیں کرنا چاہتا ہوں ‘‘ ۔ اور یوں برابر کی سطح پر ہندو مسلم تصفیے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا ۔ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی پہلی حکومت جو 14 ارکان پر مشتمل ہوتی اور جس میں 7 مسلمان نمائندے ہوتے اور 7 غیر مسلم نمائندے کہ جن میں ہندو صرف 2 ہوتے ، اسلام و مسلمانوں کے کون سے اہم مفاد کے پیش نظر مسٹر جناح کیلئے قابل قبول نہیں تھے ؟ کیا اس طرح مسلمانوں کو ہندوستان کی پہلی حکومت میں ایک معقول حصہ نہیں مل رہا تھا ؟
میرے بھائیوں میں آپ کو اس بات کی روشنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ جب لارڈ ول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے آخری وائس رائے مقرر ہو کر آئے اور اُنہوں نے دھیرے دھیرے سردار پٹیل ، جوہر لال نہرو و گاندھی وغیرہ جیسے کانگریسی رہنماؤں کو تقسیم کا نظریہ قبول کر لینے پر آمادہ کر لیا اور بالآخر 3 جون 1947 ء کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دینے کی تجویز کا اعلان کر دیا گیا ۔ میرے بھائیوں ، یہ اعلان دراصل نہ تو ہندوستان کے مفاد میں تھا اور نہ مسلمانوں کے مفاد میں ! اس سے صرف بر طانوی مفاد کی حفاظت مقصود تھی ، اس لئے کہ ہندوستان کی تقسیم اور مسلمان اکثریت کے صوبوں کی الگریاست قائم کر دینے سے بر طانیہ کو بر صغیر میں اپنے پاؤں ٹکانے کا موقع حاصل ہو جاتا تھا ۔ ایک ایسی ریاست جس میں مسلم لیگ کے نام سے بر طانیہ کے پسندیدہ افراد بر سرے اقتدار آ جائینگے مسقل طور پر بر طانیہ کے زیر اثر رکھی جا سکتی تھی اور اس کا اثر ہندوستان کے رویے پر بھی پڑنا لازم ہو گا ،ہندوستان جب یہ دیکھے گا کہ پاکستان پر انگریزوں کا اثر ہے تو وہ اپنے یہاں بھی انگریزوں کے مفاد کا لحاظ رکھے گا ۔ آخر کار 14 اگست 1947 ء میں ہندوستان تقسیم کر لیا گیا ۔ پاکستان و ہندوستان نامی دو آزاد ریاستیں وجود میں آئیں جو یکساں طور پر بر طانیہ کا من و یلت کی ممبر بننے پر راضی ہوگی اور پھر میرے بد ترین خدشات صحیح ثابت ہونے لگے ۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کا بد ترین دشمن بن کر قتل عام ، غارت گری اور لوٹ مار پر اتر آیا ۔ خون کی لکیروں کیساتھ دو ملکوں کی سرحدیں کھینچ جانے لگی اور افسوس یہ مسلمان تقسیم در تقسیم ہو کر رہ گئے ۔
لیکن اب کیا ہو سکتا ہے ، اگر چہ ہندوستان نے آزادی حاصل کرلی لیکن اسکا اتحاد باقی نہیں رہا ، پاکستان کے نام سے جو نئی ریاست وجود میں آئی ہے کہ جس میں بر طانیہ کے پسندیدہ افراد کا بر سرے اقتدار طبقہ وہ ہے جو بر طانوی حکومت کا پروردہ رہا ہے ۔ اس کے طرز عمل میں خدمتِ خلق و قربانی کا کبھی کوئی شائبہ نہیں رہا ہے اور صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے یہ لوگ پبلک کے کاموں میں شریک ہوتے رہے ہیں اور پاکستان کے قیام کا صرف ایک ہی نتیجہ ملا ہے کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی پوزیشن کمزور ہو کر رہ گئی ہے اور یہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان تو کمزور ہو ہی گئے ہیں ۔ یہ ہندوستان میں رہ جانے والے کروڑوں مسلمان جو ابد تک ہندوؤں کے ظلم اور انتقام کا شکار رہیں پاکستان میں بسنے والے مسلمان ان کی کوئی بھی مددنہ کرسکے گئے اور اسی طرح سے پاکستان میں بسنے والے مسلمان جس معاشرتی کمزوری و اقتصادی و سیاسی پسماندگی کا شکار رہیں گئے ، یہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان اُن کی کوئی بھی مدد نہ کر سکیں گے ۔ تو کیا یہ بات غور کرنے کی نہیں کہ تقسیم کی بنیاد ہی ہندو و مسلمان کے درمیان عداوت پہ رکھی گئی تھی تو پاکستان کے قیام سے یہ منافقت اک آہنی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کا حل اب اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے اور اسی طرح یہ دونوں ملک خوف وہراس کے تحتاپنے اپنے فوجی اخراجات بڑھاتے رہنے پر مجبور رہیں گے اور معاشی ترقی سے محروم ہوتے چلے جائیں گے ۔
میں آج اگر ملامت کروں تو کس کو کروں ! کیسے کروں اور کیونکر کروں ! اپنے بھائیوں کو ! اپنے عزیزوں کو ! کس دیوار سے سر ٹکراؤں !
آپ جانتے ہیں کہ مجھے کون سی چیز یہاں لے آئی ہے ؟ میرے لئے یہ شاہجان کی یادگار مسجد میں پہلا اجتماع نہیں ہے ، میں نے ایک زمانے میں بہت سی گرد پیش دیکھی تھی اور یہی آ کر خطاب کیا تھا ۔ جب تمہارے جسموں پر ایک میلے پن کی جگہ اسلام تھا اور تمہارے دلوں میں شک کے بجائے اعتماد تھا ۔ پھر آج ! تمہارے چہروں پہ مسکراہٹ اور دلوں کی دیوالی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار خوشی اور چند برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں ۔ تمہیں یاد ہے کہ جب میں نے تمہیں پکارا تو تم نے میری زبان کاٹ ڈالی ، میں نے قلم اُٹھا یا تو تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیئے ، میں نے چلنا چاہا تو تم نے میرے پاؤں کاٹ دیئے ، میں نے کروٹ لینی چاہی اور تم نے میری کمر توڑ دی ۔‘‘
تبصرہ
حدیث نبوی ؐ کی روشنی میں پاکستان کے وجود کو اسلامی تعلیمات کے منافی و حتیٰ کہ اسے مسلمانوں کے خلاف کفر کی ایک سازش قرار دیتے اسکے وجود کے بر خلاف معقول دلائل پیش کرنے والے عالم دین و بر صغیر میں مسلمانوں کے حقیقی رہنما مولانا عبدالکلام آزاد 11 نومبر 1888 ء میں مکہ شریف میں پیدا ہوئے ۔آپ کی والدہ ماجدہ کا سلسلۂ نسب عرب قوم سے تھا جبکہ آپ کے والد محترم ایک ایسے صوفی مولانا کی حیثیت سے جانے جاتے کہ جنکا شجرہ نسب صوفی خاندان کے اُن علماء سے تھا جو مذہبی اقدار کی سخت پاسداری کیلئے جانے جاتے ، بنیادی حوالوں سے آپ کے اجداد کا تعلق ہیرات (افغانستان) سے تھا جو سالوں پہلے انڈیا آئے۔ اُن وقتوں مغل بادشاہوں کا دور دورا ہوا کرتا تھا، آپ کے والد شیخ محمد خیرالدین جو ایک مذہبی اسکالر تھے، وہ مکہ ہجرت کرگئے جہاں انہوں نے مدینہکے ایک مشہور مذہبی اسکالر کی بیٹی سے شادی کی ۔ مکہ شریف میں ہی اس خاندان میں اُس عظیم ہستی کی ولادت ہوئی کہ جنہیں تاریخ مولانا آزاد کے نام سے یاد کرتی ہے ۔آپ کی پیدائش کے چند سال بعد آپ کا خاندان دوبارہ انڈیا (کلکتہ) تشریف لایا۔
مولانا عبدالکلام آزاد ایک ایسے آئیڈیل مذہبی شخصیت ہیں کہ جن کے سبب ہم مذہب اسلام کی اُن خوبیوں کو اُجاگر کر سکتے ہیں کہ جنہیں عالمی طاقتوں کے سیاسی مفادات و تضادات کے باعث اس خطے میں عموماً ماند رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ ایک ایسا مثالی کردار جو مذہب اسلام کی تعریف کیلئے ایک شناختی علامت کے طور پر دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کی اچھائیاں بیان کرتے بحیثیت اک قوی ثبوت و موضوع بن سکتا ہو ، آپ کی علمی قابلیت کا یہ احوال تھا کہ آپ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے ہر علمی مورچے میں شامل رہے ۔ آپ نے سیاسی شعور کی بیداری کیلئے نہ صرف مختلف رسالوں کے اجراء کو اپنی بدولت ممکن بنا یا بلکہ ہندوستان میں موجود متعدد زبانوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ایک بڑے ہجوم کو ایک منظم دستے میں بدلنے کیلئے اُن کی زبانوں کو شعوری طور سے سیکھا ۔ آپ کو پشتو ، ہندکو ، بنگالی ، اردو ، فارسی ، عربی ، ہندی و انگریزی پر کمال حاصل تھا ۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں موجود مختلف فرقوں کے مابین رواداری کا درس دینے کیلئے آپ نے اسلامی تعلیمات کے ہر فرقے کی مصلحتوں کو سمجھنے کی خاطر اُن کا بھر پور مطالعہ کیا ۔ آپ کو فقہ ، شریعت و تاریخ اسلام پر عبور ہونے کیساتھ ساتھ جدید علوم پر بھی دسترس حاصل تھی ۔ آپ در حقیقت اسلام کے اُن سچے عالموں میں سے تھے کہ جنہوں نے علم کو بنا تعصب دیکھتے اُسے حاصل کرنے والے کو سیرت نبویؐ پر چلنے والا مجاہد تصور کیا اور اس فرسودہ بحث کو درکنار کیا کہ جس کے تحت علم کو مختلف مدارج میں تقسیم کرتے اسلامی و غیر اسلامی میں تقسیم کیا جاتا ہو کیونکہ آپ کے مطابق ہم اُسے علم کہہ ہی نہیں سکتے کہ جسے غیر اسلامی کہا جا سکتا ہو یا جسے حاصل کرنے پر خدا کی ممانعت ہو ۔ آپ نے ریاضی ، جو میٹری ، الجبرا ، فلسفہ و تاریخ کیساتھ ساتھ دیگر سائنسی علوم کو خدا کی نعمت تصور کرتے نہ صرف اپنی شخصیت کو مزید نکھارا بلکہ اُن کی بدولت ہی آپ نے متعدد علمی رسالوں کے اجراء کو ممکن بنا یا اور اپنی متعدد تصانیف سے اہل علم کو بھیفیض یاب کیا ، جس میں بیشتر کا مقصد بر صغیر پر بر طانوی قبضے کے خلاف عام عوام کو سیاسی شعور دینا تھا ۔ آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بعض ایسے مقالمے بھی تحریر کئے کہ جنہیں اسلامی ادبی تحریروں کا ایک قیمتی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے ۔
مولانا آزاد ہندوستان کی سیاست میں وہ رہنما تصور کئے جاتے ہیں کہ جنہوں نے علمی مورچوں کے علاوہ عملاً بھی ہر سیاسی تحریک میں بھر پور متحرک رہتے اپنا اہم کردار ادا کیا ۔ آپ خلافت تحریک ، گاندھی کے( ستھیے گرھا )، 1919 ء کی (رولٹ ایکٹ )کے خلاف کہ جس میں انفرادی آزادی کے بعض پہلوؤں پر قدغن کی شقیں موجود تھی، جلیا والا باغ کے قتل عام کے خلاف اجتماعی تحریکوں و بر طانیہ سرکار سے عدم تعاون تحریک اور دیگر سول نا فرمانی کی تحریکوں میں صف اول کے دستوں میں کھڑے رہنما تھے ۔ آپ کی جرأ ت و سیاسی بالادگی کو دیکھتے 1923 ء میں آپکو کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا ، جس کے تحت آپ کو کانگریس کا سب سے کم عمر صدر ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ آپ نے انتھک محنت و اپنی قابلیت سے ہندوستانی قوم کو تعلیم و سماجی اصلاح کا وہ تصور پیش کیا کہ جس کی بنیاد پر ہی آپکو ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کا قلمدان سونپا گیا ۔ آپ نے بحیثیت وزیر تعلیم ہندوستان بھر میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکول میں داخلے کی نہ صرف با قاعدہ مہم کا آغاز کیا بلکہ تعلیم کی اہمیت کو اجا گر کرتے بالغ لوگوں کیلئے بھی تعلیم کے مواقع پیدا کئے ۔ آپ نے اپنے طے کر دہ قومی پروگرام کے تحت بڑی تیزی سے اسکولوں و لائبریریوں کے قیام کا آغاز کیا ۔ آپ نے قومی سیاست میں وزیر اعظم نہرو کی سوشلسٹ اقتصادی و صنعتی ماڈل کی بھر پور حمایت بھی انسانی خدمت کے اس جذبے کیساتھ کی کہ جس کے تحت نہ صرف ابتدائی تعلیم کی عالمی سطح کر بڑھایا جانا ممکن ہوا بلکہ اس کے تحت معاشرے کے ہر فرد خصوصاً عورتوں کو بھی کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے ۔ قرونِ وسطی کی دقیانوسی خیالات کو بر طرف کرتے اسلام میں موجود انسانی برابری کی اصل احساس کو فلسفہ اسلام کا اہم ستون قرار دیتے آپ نے عورتوں کیلئے با عزت معاشی مواقع پیدا کرتے نہ صرف غربت پر قابو پانے کا راستہ تلاشا بلکہ اُنہیں بہتر سہولیات فراہم کرتے اُن کا حقیقی وقار اُنہیں دینے میں بھی آپ کا کلیدی کردار قابلِ ستائشہے ۔ سماجی و معاشی دشواریوں کو دور کرتے معاشرے کو علم و خرت کے رجحانات کی طرف مائل کرنے میں مولانا صاحب کے کردار کو نہ صرف ہندوستانی معاشرے میں پذیرائی ملی بلکہ دنیا بھر میں آپکی قابلیت کو عملاً تسلیم کیا گیا اور اسی عوض 1956 میں آپکو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو نیسکو )کہ جسکا مقصد تعلیم کے ذریعے مثبت معاشرتی و ثقافتی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنا تھا ۔ اس ادارے کا صدر منتخب کیا گیا ۔مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت و انکی جدوجہد پر اگر نظر رکھی جائے تو یہ کہنا قطعاً غلط نہیں کہ وہ ایک ایسے اسکالر و دانشور تھے کہ جنہوں نے نہ صرف اپنے عقیدے پہ نکتہ چینی کرنے والے لوگوں کو سائنسی و فلسفیانہ دلائل دیتے لا جواب کر دینے کی سکت تھی بلکہ وہ ایسے سیاسی مفکر بھی تھے کہ جنہیں اپنے حاصل کر دہ بیش قیمتی علم کے تحت مستقبل میں رونما ہونے والے حالات کا قبل از ادراک ہوتا ۔ پاکستان کے قیام و ہندوستان کی آزادی کے دوران اُن کے مختلف مقالموں ، انٹرویوز و تقاریر کا اگر مطالعہ کرتے آج پاکستان کا بحیثیت ایک اسلامی ریاست جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ مولانا کا وہ اندیشہ کہ جسکے تحت پاکستان کا قیام کفر کی سازش تھی اپنی قلعی کھولتے ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے ۔ اُنہوں نے اپریل 1946 یعنی آج سے کوئی 66سال پہلے لاہور کے ایک میگزین ’’مضبوط چٹان ‘‘ کے صحافی سوریش کشمیری کو انٹرویو دیتے پاکستان کے متعلق اپنے جن خدشات کا اظہار کیا وہ آج مکمل طور سے صادق دکھائی دیتی ہیں کہ جس میں اُنہوں نے کوئی آٹھ نکاتوں پر بحث کی کہ جنکا خلاصہ کچھ یوں ہے ۔
-1 نا اہل سیاسی رہنماؤں کے باعث پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو فوجی آمریت سے سہارا دیا جائے گا کہ جیسا بیشتر مسلمان ممالک میں ہے ۔
-2 غیر ملکی یا بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے یہ ملک کبھی با وقار ہوتے اٹھ کھڑا نہ ہو پائے گا ۔
-3 ہمسایوں سے دوستانہ تعلقات نہ ہونے کے باعث متوقع جنگوں کا خطرہ ہمیشہ رہے گا ۔
-4 داخلی طور پر عدم اطمینان کیساتھ ساتھ علاقائی طور پر بھی تضادات پروان چڑھتے رہیں گے ۔
-5پاکستان کے نو دو لتیے صنعتکار قومی دولت کو لوٹنے میں ذرا بھی نہ ہچکچائیں گے۔-6 نو دولتیوں کی ایسی لوٹ مار و غریبوں کے حد درجے استحصال کے بعد اس ملک میں طبقاتی جنگ کے خطرے کو بھی نہیں ٹالا جا سکتا ۔
-7 معاشرے میں پائے جانے والی اس طرز کی کشیدگی و عدم اطمینان کو جھیلتے یہاں کے نوجوان نہ صرف نظریہ پاکستان سے مایوس ہونگے بلکہ اس مایوسی کے باعث و ہ مذہب سے بھی دوری اختیار کرینگے جو یقینی طور پر عالم اسلام کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا ۔
-8 نا اہل سیاسی رہنماؤں کی حتمی نا کامی کے بعد طویل آمریت اور پھر قرضوں کا بوجھ ، نو دولتیوں کی لوٹ کھسوٹ ، اندرونی و بیرونی انتشار میں شدت کہ جسکے سبب محب الوطنی کے جذبے میں کمی کے بعد بین الاقوامی قوتوں کیلئے یہ نہایت سہل رہے گا کہ وہ سازشوں کے ذریعے پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے چلائیں۔
یقینی طور سے بیان کردہ ان آٹھ نکاتوں میں کوئی ایک بھی ایسا نکتہ نہیں کہ جس سے انکار کیا جا سکتا ہو لہٰذا یہ بات قابل افسوس ہے کہ آج بھی اسلام کے نام سے خود کو منسوب کرتے پاکستانی علما تو درکنار ہمارے بلوچ عالم بھی پاکستان کے وجود و اُس کے دفاع کی بات کرتے نازاں ہوتے احمقانہ طور پر اس بلوچ و اسلام مخالف ریاست کے معمار و محافظ ہوتے اسلام زندہ باد کے ہی نعرے لگاتے ہیں جبکہ اُنہیں مولانا آزاد جیسے حقیقی عالم دین کے نقش قدم پر چلتے اسلام کی خدمت کرنی چاہیے اور خصوصاً ان وقتوں میں کہ جب اس ریاست نے خصوصی طور پر اُمت کی اُس قوم کو با قاعدہ کچلنے کیلئے اپنی تمام طاقت صرف کر دی کہ جس قوم کے ثقافتی اقدار و روایات اُمت کے دیگر اقوام کے ثقافتی اقدار سے زیادہ اسلامی تعلیمات کے مشاہبہ ہیں ۔ بلوچ علماؤں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ہمارے ثقافتی اقدار جو بلا شبہ ہمارے مذہبی عقیدے پر پورا اترتے ہیں ، اسلام سے زیادہ مشاہبہ ہونے کے باعث خدا و ند کریم کی نعمت ہیں جو حملہ آور ہوئے کسی بھی قومی ثقافت کی یلغار سے تباہی کے سبب فنا ہو سکتی ہیں لہٰذا اُس کا تحفظ محض قومی نہیں بلکہ ایک مذہبی فریضہ بھی ہے جسے پاکستانی خفیہ اداروں کی پیدا کردہ ان رہزنوں و نام نہاد عالموں کی باتوں میں آتے فراموش نہیں کیا جا سکتا جو دین کا لبادہ اوڑھےکردہ ان رہزنوں و نام نہاد عالموں کی باتوں میں آتے فراموش نہیں کیا جا سکتا جو دین کا لبادہ اوڑھے پاکستانی خفیہ اداروں کی بیان کر دہ تاکیدوں کو اسلامی تعلیمات سے منسوب کرنے کا گناہ کرتے ہوں ۔ اس زمرے میں ہمیں اپنی قومی جدوجہد کو جہاد کے طور سے سمجھتے ، مزید طاقت بخشتے اُس پاک ریاست ( آزاد بلوچستان ) کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا کہ جہاں قبضہ گیریت و قوموں کو محکوم کرتے اُنکا استحصال کرنے کی شیطانی خصلتوں کے بنا بھی اسلام کا جھنڈا بلند کیا جا سکتا ہو ۔
اس ضمن میں ہمیں پاکستانی خفیہ اداروں کے پیدا کردہ بہروپیوں و حقیقی علماء اسلامی کی پہچان کرنا ہو گی جو یقینی طور پر مولانا آزاد جیسی مثالی شخصیت سے موازنے پر کی جا سکتی ہے ۔ مثلاً کچھ دیر کو اگر ہم سوچیں کہ اک ایسا انسان جو محض 12 سال کی عمر میں علم کی یہ پیاس لئے خود کو محنت کی بھٹی میں تاپتا ہو کہ اُسے غزالی کی سوانح عمری لکھنی ہے جو فقط 14 سال کی عمر میں ہی ہندوستان کے نہایت قابل تعریف ادبی میگزین میں با قاعدہ سے آرٹیکل لکھتا ہو کہ جنہیں پڑھتے مولانا شبلی نعمانی جیسی شخصیت کہ جنہیں دنیا شمس العلماء یعنی ’’علم کا سورج و روشنی ‘‘ کہے ، وہ بھی متاثر ہو ں ،ایسا انسان جو 16 سال کی عمر میں اپنی علمی جہت کا ایک جز پورا کرتے کسی قابل معلم کی طرح دیگر طلبہ کو اسلام ، فلسفہ ، ریاضی و منطق پڑھاتا ہو ، ال ہلال جیسے اخبار کا خالق و قلم کار کہ جسے اپنے صحافتی معیار کی بدولت ایسی شہرت ملے کہ انگریز سرکار کی سیٹی غائب ہو اور جسکے متوقع اثرات کو دیکھتے محض 5 مہینوں کے اندر ہی ممنوعہ قرار دیا جائے ، ایسا انسان جو اپنی سیاسی جدوجہد میں زندان میں قید ہو مگر پھر بھی خدمت اسلام و علم کی چادر تھامے رہتے زندان میں قید رہنے کے با وجود بھی قرآن کا اردو ترجمہ بمعہ تفسیر نامی اپنی کتاب کی پہلی جلد لکھتے اُسے مکمل کر دے ۔ ایسا فلسفی کہ جسکی فلسفیانہ احکایتوں پر گاندھی جیسی بڑی شخصیت اُسے )شہنشاہِ علم ( کہتے اُن کا موازنہ فیشا غورث ، ارسطو و افلاطون کے پائے کے دانشوروں سے کرتے ہوں ، سیاسی جدوجہد میں آپکی دیدہ دلیری دیکھتے خود نہرو آپکو ’’میرِ کارواں ‘‘ کہتے پکاریں اور آزادی کے بعد وزیر اعظم بنتے آپکو اپنی کابینہ میں اپنے بعد اولین درجہ دیں اور ساتھ میں قومی پالیسی بناتے آپکی خاص صلح و رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دیں ، ایسا انسان جو اسلامی تعلیمات کے تحت کثیرالقومی اسلام یعنی (اُمہؔ ) کے قائل ہوتے ہوئے بھی اقوام کے وجود کو خدا تعالیٰ کی رضا کہتا مختلف اقوام کی قومی آزادی کو تسلیم کرتے خود اُن سے قربت پانے و اُنکی قومی آزادی میں حائل رکاوٹوں کو بہتر سمجھنے کی خاطر خود افغانستان ، مصر ، شام ، ترکی و عراق کا دورہ کرتے مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھتے سامراج مخالف قومی جدوجہدوں کو عین اسلامی قرار دیتے خود بھی سامراج مخالف جدوجہد کا حصہ بنتا ہو ، یا وہ عالم کہ جسکے علم سے متاثر ہوئے اُسے آزاد ہندوستان میں وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا جائے اور وہ جدید علوم کے تحت ہندوستان میں صنعت و حرفت کی ترقی کیلئے سب سے پہلا ریسرچ ادارہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھتا ہو ، وہ عالم کی جسکی علمی قابلیت و خدمات کو تسلیم کرتے آج بھی ہندوستان کی ایک ارب 20 کروڑ عوام اُس عظیم عالم کی تاریخ ولادت کو (نیشنل ایجوکیشن ڈے )یعنی قومی تعلیمی دن کے طور پر مناتی ہو ، جسکی علمی قابلیت و جدوجہد کو دیکھتے اُسے ہندوستان کے سب سے معزز شہری ایوارڈ ’’بھارت رتنا‘‘ سے نوازا جائے ، وہ انسان دوست ، خدا ترس و عظیم مسلمان مفکر کہ جسکا اصل نام ہی ’’ابو کلام ‘‘ یعنی ’’بابائے گفت یا آقا ئے گفتار ‘‘ ہو …… کیا اُس کا موازنہ ایسے انسان سے کیا جا سکتا ہے جو خود کو عالم دین کہتا ، اسلام جیسے آفاقی مذہب کو محض طہارت ، غسل و استنجے کی بے معنی بحث تک محدود رکھے ؟ کہ جسکے مطابق دینی مسائل محض عمامے کی رنگت و پائنچوں کی اونچائی اور داڑھی کی لمبائی جیسے مسائل پر محیط ہو ؟ یا ایسا مولوی جو پاکستانی خفیہ اداروں کی منصوبہ بندی کے تحت پہلے سوویت روس کو امریکہ کے سامنے زیر کرنے کی جنگ کو جہاد کا نام دیتے امریکی اتحادی بنتا ڈالر کماتا ہو اور جب پاکستانی خفیہ اداروں کے مفادات امریکہ کے بر خلاف ہوں تو تمام مجاہدین کو زر خرید فوج (دہشتگر دوں)کی مانند استعمال کرتا اُنہیں امریکہ مخالف بنا دیتا ہو ایسا مولوی کے جس کے پاس کفار کا اتحادی و کفار کا دشمن ہونے کا جواز محض ذاتی مفاد ہو ! ایسا مولوی جو اُس ریاست کو اسلامی کہتا ہو کہ جس کا اسلام پہ چلنے کا عزم امریکی امداد سے مشروط ہو کہ جب سوویت روس کے خلاف جنگ کا دور دورہ تھا تو پوری ریاستی مشینری بشمول ٹی وی پہ مذہبی پروگراموں کا سلسلہ تھا اور آج چونکہ امداد ’’جہاد نہ کرنے ‘‘ سے مشروط کی گئی ہے لہٰذا سالہ سال ٹی ویپہ عشاء کی چلنے والی اذان کو بھی جگہ نہیں دی جا رہی اور اس کے بجائے جالب و فیض جیسے اُن شاعروں کے اشعار چلائے جا رہے ہیں کہ کل تک یہ ریاست جنہیں خود غدار پکارا کرتی ! ایسا نام نہاد عالم جو اُس فوج کو اسلامی کہتا پاک سمجھے کہ جس نے بنگالی مسلمانوں کا نہ صرف نا حق خون بہا یا بلکہ زنا بالجبر جیسے گناہ کا مرتکب ہو ا ! ایسا نام نہاد مولوی جو یہ تو جانتا ہو کہ اسلام میں غلام رکھنے کی سخت ممانعت ہے مگر وہ اپنے دہرے معیار کے تحت اُس ریاست کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیتا کہ جس ظالم ریاست نے اُمت کی پوری ایک قومی یعنی بلوچ کو عرصہ دراز سے غلام رکھا ہو ۔
در حقیقت یہ حقیقی علماء اسلام نہیں بلکہ وہ بہروپیے ہیں کہ جنہیں پاکستان اپنی قبضہ گیریت کو برقرار رکھنے کیلئے عام عوام میں بحیثیت علماء شہرت دلاتا ہے تاکہ عام عوام میں اُنکی مقبولیت کے بعد اُنہی سے اپنے اس غیر اسلامی عمل کا اسلامی جواز ( جو قطعاً اسلامی نہیں ) حاصل کیا جائے اور یہ بہروپیے بنا خوفِ خدا فقط ذاتی مفادات کے تحت لاکھوں انسانوں کے استحصال و اُن کی اُس شناخت کو فنا کر نے کیلئے اپنا مجرمانہ کردار ادا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ نے ہماری پہچان کیلئے ہمیں عنایت کی ۔ ان کے ایسے دہرے معیارات سے ہی اُن کی شخصیت کا احاطہ کیا جا سکتا ہے مثلاً ہم پوری پاکستانی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو کیا یہ سوال جائز نہیں کہ یہ ہندوستان کہ جہاں پاکستان سے بھی زائد مسلمان آباد ہیں کہ جہاں صرف دہلی جیسے ایک شہر میں ہمارے مساجد کی تعداد ہزاروں ہے کہ جن میں جامع مسجد سے مماثل ہماری شاندار عبادت گاہوں کی اگر فہرست تیار کی جائے تو اسلامی تعمیرات کا ایک خزانہ محض دہلی سے ہی بر آمد ہو سکتا ہے ۔ یہ وہاں تو جہاد کی بات کرتے ہیں مگر ہمارے دوسرے ہمسایے ممالک یعنی ایران کہ جس کے دارالخلافہ یعنی تہران میں بد قسمتی سے ایک بھی سنی مسجد نہیں ، جہاں ہمارے مساجد کی تعمیر پر غیر اعلانیہ پابندی ہے ، اُس کے بر خلاف ان میں جہاد کا کوئی جنون نہیں ! ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کو اپنے مذہبی فریضے کی مکمل آزادی ہونے کے با وجود بھی ان کے وہاں جہاد کرنے کا جذبہ ختم نہیں ہوتا مگر یہی پاکستانی اُس چین کو اپنا دوست کہتے نہیں تھکتے کہ جس ملک میں سرے سے کوئی بھی مذہب اپنانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہو ، کہ جہاں لا دینیت کو سرکاری سطح پر با ضابطہ(سرکاری طورپر)تسلیم کیا جاتا ہو کہ جہاں ایک ارب انسانوں کو جبری مذہب سے دو ر رکھا جاتا ہو کہ جہاں کُل آبادی کا بیشتر ہجم لا دین لوگوں پر مشتمل ہو کہ جہاں ایک ارب لوگوں میں محض 1%مسلمان ہوں ، وہاں نہ جہاد کی بات کی جاتی ہے اور نہ وہاں اسلام پھیلانے کا کوئی منصوبہ موضوع بنتا ہے جبکہ اس کے بر عکس ان کے ہر تبلیغی کارواں کا رخ اُ س بلوچ سر زمین کی جانب ہوتا ہے کہ جہاں کی 99% آبادی ان سے صدیوں پہلے اسلام قبول کر چکی ہے ۔ کیا یہ سوال اُن کی شخصیات کو غیر معتبر نہیں بنا دیتا کہ آج جب بلوچستان اپنی غلامی کے بر خلاف آزادی کی منزلیں طے کر رہا ہے تو اُسے مسلمان ہونے کے با وجود لگاتار اسلام کا درس دیتے قومی آزادی کی اپنی تحریک سے دستبردار کیا جا رہا ہے جبکہ اُن کا پیغام اگر واقعتا اسلامی ہے تو اُن کے تبلیغی کاموں کی اشد ضرورت تو دیگر ہمسایہ ممالک میں ہے !
ان حقائق بر تبصرہ کرنے کا میرا مقصد اپنے جہادی و تبلیغی بھائیوں کو چین یا ایران کے خلاف بھڑکانا نہیں اور نہ ہی میں ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کو نظر انداز کرنے کی تلقین کر رہا ہوں بلکہ ان سوالات کا مقصد خود اُنہیں یہ احساس دلانا ہے کہ جہاد یا تبلیغ جیسے مقدس فریضے کیلئے کسی ایسے انسان کو اپنا رہبر نہ چنا جائے کہ جسے ہمارے مذہبی احساسات کو استعمال کرتے پاکستانی خفیہ اداروں کے سامنے سر خرو ہونا ہو کیونکہ جہاد و تبلیغ کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے نا کہ کسی ریاست کی استحصالی و سیاسی پالیسیوں کی تکمیل کیلئے کسی قوم کو اسکی جدوجہد سے دستبردار کرنا اور اس مد میں تو ایسے سوالات کی ایک پوری فہرست ترتیب دی جا سکتی ہے کہ جس سے اُن پاکستان نواز عالموں کی شخصیات کو مذبذب کیا جا سکتا ہے جو پاکستانی خفیہ اداروں کے احکامات پر بلوچ قوم کو اسلام کے پاک نام پر اپنے تخلیق کردہ دہرے معیارات کے تحت گمراہ کرتے قومی جدوجہد سے دستبردار کرنے پہ اکساتے ہوں ، مگر چونکہ اس تحریر کا مقصد ذاتیات پر تبصرہ کرنے کے بجائے اسلام کی اُس شخصیت سے آپ قارئین کو آشنا کرنا ہے کہ جس کے متعلق ہمارے یہاں ایک لفظ بھی نہیں کہا جاتا اور بعض دفعہ تو اس حد تک نفرت ظاہر کی جاتی ہے کہ آپ اگر کسی فلمی قسم کے پاکستانی کو یہ بتا دیں کہ بھارتی ادا کار عامر خان کا شجرہ نسب مولانا آزاد سے ملتا ہے تو وہ بھی شائد عامر خان کی فلموں کا بائیکاٹ کرتیاُسے پاکستان دشمن تصور کرے ۔ اسی لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا موضوع ایک مذہبی شخصیت پر تبصرہ کرتے بھی کسی حد تک انقلابی ہی ہے جبکہ اس عالم کا یہ اقرار تو نہایت انقلابی ہے کہ اقوام کی قومی جدوجہد بھی عین اسلامی و شرعی ہے کیونکہ اُن کے مطابق لفظ ’’اُمہؔ ‘‘ قوم نہیں بلکہ مختلف مسلم اقوام کے اتحاد کا نام ہے ۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں خود کہتے ہی کہ :’’ قرآن کے مطابق لفظ قوم ایک مذہب کو ماننے والوں کیلئے نہیں بلکہ ایک ثقافت رکھنے والوں کیلئے بھی استعمال ہوا ہے جبکہ لفظ ’’ اُمہ ؔ ‘‘ ایک مذہب کی مختلف اقوام کو مخاطب کرنے کیلئے خداوند کریم نے چنا اور اسی طرح یہ ہر قوم کا حق ہے کہ خدا کی عنایت کردہ نعمت یعنی آزادی اُسے ہر حال میں ملے کیونکہ یہ وہ بیش قیمتی نعمت ہے کہ جسے فقط مذہب کی بنیاد پر نہیں بانٹا جا سکتا ۔ ‘‘
میرا یہ لکھا اُس انسان کے متعلق ہے جو اس آفاقی سچ کو تسلیم کرنے کی جرأت رکھتا تھا کہ قومی شناخت خدا کی عنایت کردہ وہ نعمت ہے کہ جسکی توسط خدا نے ہمیں مشاہبہ اطوار عنایت کرتے ایک ثقافت کے تحت یکجا کرتے اک جداگانہ پہچان دی اور خدا کی عطا کردہ اس پہچان کے تحفظ کی جنگ قطعاً مذہبی تعلیمات کے بر عکس نہیں ، اک ایسا انسان کہ جسے کسی ظالم فوج کا خوف نہیں ، جو اپنے ذاتی مفادات کو بر طرف کرتے خالص اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر حق کو حق و نا حق کو نا حق کہنے کی جرأت رکھتا تھا کہ جس نے سامراج دوستی و انگریزوں کی پالیسیوں پر نرم رویہ رکھنے والے اُن وقتوں کے معتبر شخصیت سر سید احمد خان جیسے اہم رہنما پر بلا خوف تنقید کرنے کی جرأت رکھی ، کہ جس نے گاندھی کے پیچھے آنکھیں موند کے چلنے کو بت پرستی جیسے کفر سے تشبیہ دیتے عدم تعاون تحریک (نان کارپوریٹ موومنٹ) میں گاندھی کے دستبردار ہوجانے پر بیچ کانگریس سیشن میں اُن پر تنقید کرنے کی ہمت دکھائی ، ایسا سچا مومن کہ جب اُسے پوچھا گیا کہ مولانا ، مسلم علماء تو زیادہ تر جناح کے ساتھ ہیں تو آپ کا جواب یہی تھا کہ ’’علماء تو اکبر اعظم کے ساتھ بھی تھے کہ جنہوں نے اُس کی خاطر اسلام کے نام پر ایک نیا کوئی مذہب تخلیق کر ڈالا اور ہمارے علماؤں کی اسی انفرادی نوعیت کی کمزوریوں کے سبب ہی عالم اسلام کی اس 1300 سالوں کی تاریخ میں ما سوائے چند علماؤں کے مسلمانوں کو آج اُن کے نام تک یاد نہیں ،مگر میں مسلمان ہوتے وہی کہونگا کہ جو حق ہے ، بے شک جو سچ ہے ۔ ‘‘ حاصل ہوئی سالہاسال پرانی ریکارڈنگ کا حصہ تھی لہٰذا ٹرانسکپشن میں سطحی کمی بیشیوں کا پیشگی اعتراف کیاجانا مناسب سمجھا گیا۔
تقریر
’’دنیا میں وہی بچتا ہے کہ جس کی بنیادیں مضبوط ہوں ۔ میں آپ کو آئندہ نقشوں کے بننے سے نہیں روکتا لیکن آل انڈیا کانگریس کی صدارت کے ان دو برسوں میں جو کوششیں میں نے کیں اور مسلمان لیڈروں نے جس طرح اُنہیں ٹکرایا اُسکے بیان کرنے کا یہ موقع تو نہیں لیکن آپ کی یاد دہانی کیلئے مجھے پھر دہرانا پڑتا ہے کہ جب میں نے مسلم لیگ کی اس پاکستانی اسکیم کی تمام تر پہلوؤں پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پورے ہندوستان کیلئے اس اسکیم کے جو بھی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کیلئے بھی یہ تجویز سخت تباہ کن ثابت ہوگی ۔ اس سے اُن کی کوئی مشکل حل ہونے کے بجائے مزید مشکلیں پیدا ہوجائینگی ۔
اول تو پاکستان کا لفظ ہی میرے نزدیک اسلامی تصورات کے خلاف ہے ۔ پیغمبر اسلام ؐ کا ارشاد ہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے تمام روحِ زمین کو میرے لئے مسجد بنا دی ‘‘
میرے مطابق اس روحِ زمین کو یوں پاک اور نا پاک میں تقسیم کرنا ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔ دوسری یہ کہ یہ پاکستان کی اسکیم ایک طرح سے مسلمانوں کی شکست کی علامت ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 10 کروڑ کے اندر ہے اور وہ اپنی زبردست تعداد کے ساتھ ایسی مذہبی و معاشرتی صفات کے حامل ہیں کہ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگیوں و پالیسیوں اور نظم و نسق کے تمام معاملات پر فیصلہ کن اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ پاکستان کی اسکیم کے ذریعے ان کی یہ ساری قوت و صلاحیت تقسیم و ضائع ہو جائے گی اور میرے نزدیک یہ بد ترین بزدلی کا نشان ہے کہ میں اپنے میراثِ پدری سے دستبردار ہو کر ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر قناعت کر لوں ۔ میں اس مسئلے کے دوسرے تمام پہلوؤں کو نظر انداز کرکے تنہا مسلم مفاد کے نقطہ نگاہ سے بھی غور کرنے کیلئے تیار ہوں اور پاکستانی اسکیم کو کسی بھی طرح سے مسلمانوں کیلئے مفید ثابت کر دیا جائے تو میں اسے قبول کر لوں گا اورد وسرے سے اسے منوانے پر اپنا پورا زور صرف کر ڈالوں گا ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم سے مسلمانوں کی اجتماع و ملکی مفاد کو زرا بھی فائد ہ نہ ہوگا اور نہ اُن کا کوئی اندیشہ دور ہو سکے گا ۔ ہاں جو تجویز اور فارمولہ میں نے تیار کیا تھا کہ جسے کامرہ مشن اور کانگریس دونوں سے ہی منظور کروالینے میں مجھے کامیابی بھی حاصل ہوئی اور جسکی روح سے تمام صوبے مکمل طور پر خود مختار قرار دے دیئے گئے تھے کہ جس میں پاکستانی اسکیم کی وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اُن نقائص سے پاک ہیں جو اُن کی اسکیم میں پائے جاتے ہیں ۔ آپ اگر جذبات سے بالا تر ہو کر اسکے ممکنہ نتائج پر غور کریں تو ہندو اکثریتی علاقوں میں کروڑوں کی تعداد میں یہ مسلمان مگر چھوٹی چھوٹی اقلیتوں کی صورت میں پورے ملک میں بکھر کر رہ گئے اور آج کے مقابلے میں آنے والے کل میں اور بھی زیادہ کمزور ہو جائیں گے ۔ جہاں اُن کے گھر بار ، بد دو باش ایک ہزار سال سے چلی آ رہی ہے اور جہاں اُنہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے مشہور و بڑے بڑے مراکز تعمیر کئے ، ہندو اکثریتی علاقوں میں بسنے والے یہ مسلمان ایک دن اچانک صبح آنکھ کھولتے ہی اپنے آپ کو اپنے وطن میں پڑوسی اور اجنبی پائیں گے ۔ صنعتی ، تعلیمی و معاشی لحاظسے پسماندہ ہونگے اور ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر ہونگے جو خالص ہندو راج بنے گی ۔ پاکستان میں اگر خواہ مکمل مسلم اکثریتی حکومت ہی قائم کیوں نہ ہو جائے اس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہر گز حل نہیں ہو سکے گا ۔ یہ دو ریاستیں ایک دوسرے کے مد مقابل ایک دوسرے کی اقلیتوں کا مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتی ۔ اس سے صرف یرغمال و انتقام کا راستہ کھلے گا ۔
میرے بھائیوں آپکو یاد ہو گا کہ وسط جون 1940 ء میں کانگریس کی صدارت سنبھالنے کے بعد جب میں نے ہندو مسلم اختلاف کے تصفیے پر بحیثیت صدر کانگریس ، مسٹر محمد علی جناح (صدر مسلم لیگ ) کو ایک تجویز بھیجی تھی کہ ہندوستان کے تمام صوبوں اور مرکز میں کسی ایک پارٹی کی وزارت کے بجائے کانگریس و مسلم لیگ پر مشتمل مخلوط وزارتیں بنائی جائیں ، لیکن مسٹر جناح نے میری تجویز یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ’’تم کو کانگریس شنوائی کی طرح کانگریس کا صدر بنا یا ہے ، اس لئے میں تم سے کسی طرح کی گفتگو نہیں کرنا چاہتا ہوں ‘‘ ۔ اور یوں برابر کی سطح پر ہندو مسلم تصفیے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا ۔ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی پہلی حکومت جو 14 ارکان پر مشتمل ہوتی اور جس میں 7 مسلمان نمائندے ہوتے اور 7 غیر مسلم نمائندے کہ جن میں ہندو صرف 2 ہوتے ، اسلام و مسلمانوں کے کون سے اہم مفاد کے پیش نظر مسٹر جناح کیلئے قابل قبول نہیں تھے ؟ کیا اس طرح مسلمانوں کو ہندوستان کی پہلی حکومت میں ایک معقول حصہ نہیں مل رہا تھا ؟
میرے بھائیوں میں آپ کو اس بات کی روشنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ جب لارڈ ول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے آخری وائس رائے مقرر ہو کر آئے اور اُنہوں نے دھیرے دھیرے سردار پٹیل ، جوہر لال نہرو و گاندھی وغیرہ جیسے کانگریسی رہنماؤں کو تقسیم کا نظریہ قبول کر لینے پر آمادہ کر لیا اور بالآخر 3 جون 1947 ء کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دینے کی تجویز کا اعلان کر دیا گیا ۔ میرے بھائیوں ، یہ اعلان دراصل نہ تو ہندوستان کے مفاد میں تھا اور نہ مسلمانوں کے مفاد میں ! اس سے صرف بر طانوی مفاد کی حفاظت مقصود تھی ، اس لئے کہ ہندوستان کی تقسیم اور مسلمان اکثریت کے صوبوں کی الگریاست قائم کر دینے سے بر طانیہ کو بر صغیر میں اپنے پاؤں ٹکانے کا موقع حاصل ہو جاتا تھا ۔ ایک ایسی ریاست جس میں مسلم لیگ کے نام سے بر طانیہ کے پسندیدہ افراد بر سرے اقتدار آ جائینگے مسقل طور پر بر طانیہ کے زیر اثر رکھی جا سکتی تھی اور اس کا اثر ہندوستان کے رویے پر بھی پڑنا لازم ہو گا ،ہندوستان جب یہ دیکھے گا کہ پاکستان پر انگریزوں کا اثر ہے تو وہ اپنے یہاں بھی انگریزوں کے مفاد کا لحاظ رکھے گا ۔ آخر کار 14 اگست 1947 ء میں ہندوستان تقسیم کر لیا گیا ۔ پاکستان و ہندوستان نامی دو آزاد ریاستیں وجود میں آئیں جو یکساں طور پر بر طانیہ کا من و یلت کی ممبر بننے پر راضی ہوگی اور پھر میرے بد ترین خدشات صحیح ثابت ہونے لگے ۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کا بد ترین دشمن بن کر قتل عام ، غارت گری اور لوٹ مار پر اتر آیا ۔ خون کی لکیروں کیساتھ دو ملکوں کی سرحدیں کھینچ جانے لگی اور افسوس یہ مسلمان تقسیم در تقسیم ہو کر رہ گئے ۔
لیکن اب کیا ہو سکتا ہے ، اگر چہ ہندوستان نے آزادی حاصل کرلی لیکن اسکا اتحاد باقی نہیں رہا ، پاکستان کے نام سے جو نئی ریاست وجود میں آئی ہے کہ جس میں بر طانیہ کے پسندیدہ افراد کا بر سرے اقتدار طبقہ وہ ہے جو بر طانوی حکومت کا پروردہ رہا ہے ۔ اس کے طرز عمل میں خدمتِ خلق و قربانی کا کبھی کوئی شائبہ نہیں رہا ہے اور صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے یہ لوگ پبلک کے کاموں میں شریک ہوتے رہے ہیں اور پاکستان کے قیام کا صرف ایک ہی نتیجہ ملا ہے کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی پوزیشن کمزور ہو کر رہ گئی ہے اور یہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان تو کمزور ہو ہی گئے ہیں ۔ یہ ہندوستان میں رہ جانے والے کروڑوں مسلمان جو ابد تک ہندوؤں کے ظلم اور انتقام کا شکار رہیں پاکستان میں بسنے والے مسلمان ان کی کوئی بھی مددنہ کرسکے گئے اور اسی طرح سے پاکستان میں بسنے والے مسلمان جس معاشرتی کمزوری و اقتصادی و سیاسی پسماندگی کا شکار رہیں گئے ، یہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان اُن کی کوئی بھی مدد نہ کر سکیں گے ۔ تو کیا یہ بات غور کرنے کی نہیں کہ تقسیم کی بنیاد ہی ہندو و مسلمان کے درمیان عداوت پہ رکھی گئی تھی تو پاکستان کے قیام سے یہ منافقت اک آہنی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کا حل اب اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے اور اسی طرح یہ دونوں ملک خوف وہراس کے تحتاپنے اپنے فوجی اخراجات بڑھاتے رہنے پر مجبور رہیں گے اور معاشی ترقی سے محروم ہوتے چلے جائیں گے ۔
میں آج اگر ملامت کروں تو کس کو کروں ! کیسے کروں اور کیونکر کروں ! اپنے بھائیوں کو ! اپنے عزیزوں کو ! کس دیوار سے سر ٹکراؤں !
آپ جانتے ہیں کہ مجھے کون سی چیز یہاں لے آئی ہے ؟ میرے لئے یہ شاہجان کی یادگار مسجد میں پہلا اجتماع نہیں ہے ، میں نے ایک زمانے میں بہت سی گرد پیش دیکھی تھی اور یہی آ کر خطاب کیا تھا ۔ جب تمہارے جسموں پر ایک میلے پن کی جگہ اسلام تھا اور تمہارے دلوں میں شک کے بجائے اعتماد تھا ۔ پھر آج ! تمہارے چہروں پہ مسکراہٹ اور دلوں کی دیوالی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار خوشی اور چند برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں ۔ تمہیں یاد ہے کہ جب میں نے تمہیں پکارا تو تم نے میری زبان کاٹ ڈالی ، میں نے قلم اُٹھا یا تو تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیئے ، میں نے چلنا چاہا تو تم نے میرے پاؤں کاٹ دیئے ، میں نے کروٹ لینی چاہی اور تم نے میری کمر توڑ دی ۔‘‘
تبصرہ
حدیث نبوی ؐ کی روشنی میں پاکستان کے وجود کو اسلامی تعلیمات کے منافی و حتیٰ کہ اسے مسلمانوں کے خلاف کفر کی ایک سازش قرار دیتے اسکے وجود کے بر خلاف معقول دلائل پیش کرنے والے عالم دین و بر صغیر میں مسلمانوں کے حقیقی رہنما مولانا عبدالکلام آزاد 11 نومبر 1888 ء میں مکہ شریف میں پیدا ہوئے ۔آپ کی والدہ ماجدہ کا سلسلۂ نسب عرب قوم سے تھا جبکہ آپ کے والد محترم ایک ایسے صوفی مولانا کی حیثیت سے جانے جاتے کہ جنکا شجرہ نسب صوفی خاندان کے اُن علماء سے تھا جو مذہبی اقدار کی سخت پاسداری کیلئے جانے جاتے ، بنیادی حوالوں سے آپ کے اجداد کا تعلق ہیرات (افغانستان) سے تھا جو سالوں پہلے انڈیا آئے۔ اُن وقتوں مغل بادشاہوں کا دور دورا ہوا کرتا تھا، آپ کے والد شیخ محمد خیرالدین جو ایک مذہبی اسکالر تھے، وہ مکہ ہجرت کرگئے جہاں انہوں نے مدینہکے ایک مشہور مذہبی اسکالر کی بیٹی سے شادی کی ۔ مکہ شریف میں ہی اس خاندان میں اُس عظیم ہستی کی ولادت ہوئی کہ جنہیں تاریخ مولانا آزاد کے نام سے یاد کرتی ہے ۔آپ کی پیدائش کے چند سال بعد آپ کا خاندان دوبارہ انڈیا (کلکتہ) تشریف لایا۔
مولانا عبدالکلام آزاد ایک ایسے آئیڈیل مذہبی شخصیت ہیں کہ جن کے سبب ہم مذہب اسلام کی اُن خوبیوں کو اُجاگر کر سکتے ہیں کہ جنہیں عالمی طاقتوں کے سیاسی مفادات و تضادات کے باعث اس خطے میں عموماً ماند رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ ایک ایسا مثالی کردار جو مذہب اسلام کی تعریف کیلئے ایک شناختی علامت کے طور پر دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کی اچھائیاں بیان کرتے بحیثیت اک قوی ثبوت و موضوع بن سکتا ہو ، آپ کی علمی قابلیت کا یہ احوال تھا کہ آپ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے ہر علمی مورچے میں شامل رہے ۔ آپ نے سیاسی شعور کی بیداری کیلئے نہ صرف مختلف رسالوں کے اجراء کو اپنی بدولت ممکن بنا یا بلکہ ہندوستان میں موجود متعدد زبانوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ایک بڑے ہجوم کو ایک منظم دستے میں بدلنے کیلئے اُن کی زبانوں کو شعوری طور سے سیکھا ۔ آپ کو پشتو ، ہندکو ، بنگالی ، اردو ، فارسی ، عربی ، ہندی و انگریزی پر کمال حاصل تھا ۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں موجود مختلف فرقوں کے مابین رواداری کا درس دینے کیلئے آپ نے اسلامی تعلیمات کے ہر فرقے کی مصلحتوں کو سمجھنے کی خاطر اُن کا بھر پور مطالعہ کیا ۔ آپ کو فقہ ، شریعت و تاریخ اسلام پر عبور ہونے کیساتھ ساتھ جدید علوم پر بھی دسترس حاصل تھی ۔ آپ در حقیقت اسلام کے اُن سچے عالموں میں سے تھے کہ جنہوں نے علم کو بنا تعصب دیکھتے اُسے حاصل کرنے والے کو سیرت نبویؐ پر چلنے والا مجاہد تصور کیا اور اس فرسودہ بحث کو درکنار کیا کہ جس کے تحت علم کو مختلف مدارج میں تقسیم کرتے اسلامی و غیر اسلامی میں تقسیم کیا جاتا ہو کیونکہ آپ کے مطابق ہم اُسے علم کہہ ہی نہیں سکتے کہ جسے غیر اسلامی کہا جا سکتا ہو یا جسے حاصل کرنے پر خدا کی ممانعت ہو ۔ آپ نے ریاضی ، جو میٹری ، الجبرا ، فلسفہ و تاریخ کیساتھ ساتھ دیگر سائنسی علوم کو خدا کی نعمت تصور کرتے نہ صرف اپنی شخصیت کو مزید نکھارا بلکہ اُن کی بدولت ہی آپ نے متعدد علمی رسالوں کے اجراء کو ممکن بنا یا اور اپنی متعدد تصانیف سے اہل علم کو بھیفیض یاب کیا ، جس میں بیشتر کا مقصد بر صغیر پر بر طانوی قبضے کے خلاف عام عوام کو سیاسی شعور دینا تھا ۔ آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بعض ایسے مقالمے بھی تحریر کئے کہ جنہیں اسلامی ادبی تحریروں کا ایک قیمتی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے ۔
مولانا آزاد ہندوستان کی سیاست میں وہ رہنما تصور کئے جاتے ہیں کہ جنہوں نے علمی مورچوں کے علاوہ عملاً بھی ہر سیاسی تحریک میں بھر پور متحرک رہتے اپنا اہم کردار ادا کیا ۔ آپ خلافت تحریک ، گاندھی کے( ستھیے گرھا )، 1919 ء کی (رولٹ ایکٹ )کے خلاف کہ جس میں انفرادی آزادی کے بعض پہلوؤں پر قدغن کی شقیں موجود تھی، جلیا والا باغ کے قتل عام کے خلاف اجتماعی تحریکوں و بر طانیہ سرکار سے عدم تعاون تحریک اور دیگر سول نا فرمانی کی تحریکوں میں صف اول کے دستوں میں کھڑے رہنما تھے ۔ آپ کی جرأ ت و سیاسی بالادگی کو دیکھتے 1923 ء میں آپکو کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا ، جس کے تحت آپ کو کانگریس کا سب سے کم عمر صدر ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ آپ نے انتھک محنت و اپنی قابلیت سے ہندوستانی قوم کو تعلیم و سماجی اصلاح کا وہ تصور پیش کیا کہ جس کی بنیاد پر ہی آپکو ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کا قلمدان سونپا گیا ۔ آپ نے بحیثیت وزیر تعلیم ہندوستان بھر میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکول میں داخلے کی نہ صرف با قاعدہ مہم کا آغاز کیا بلکہ تعلیم کی اہمیت کو اجا گر کرتے بالغ لوگوں کیلئے بھی تعلیم کے مواقع پیدا کئے ۔ آپ نے اپنے طے کر دہ قومی پروگرام کے تحت بڑی تیزی سے اسکولوں و لائبریریوں کے قیام کا آغاز کیا ۔ آپ نے قومی سیاست میں وزیر اعظم نہرو کی سوشلسٹ اقتصادی و صنعتی ماڈل کی بھر پور حمایت بھی انسانی خدمت کے اس جذبے کیساتھ کی کہ جس کے تحت نہ صرف ابتدائی تعلیم کی عالمی سطح کر بڑھایا جانا ممکن ہوا بلکہ اس کے تحت معاشرے کے ہر فرد خصوصاً عورتوں کو بھی کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے ۔ قرونِ وسطی کی دقیانوسی خیالات کو بر طرف کرتے اسلام میں موجود انسانی برابری کی اصل احساس کو فلسفہ اسلام کا اہم ستون قرار دیتے آپ نے عورتوں کیلئے با عزت معاشی مواقع پیدا کرتے نہ صرف غربت پر قابو پانے کا راستہ تلاشا بلکہ اُنہیں بہتر سہولیات فراہم کرتے اُن کا حقیقی وقار اُنہیں دینے میں بھی آپ کا کلیدی کردار قابلِ ستائشہے ۔ سماجی و معاشی دشواریوں کو دور کرتے معاشرے کو علم و خرت کے رجحانات کی طرف مائل کرنے میں مولانا صاحب کے کردار کو نہ صرف ہندوستانی معاشرے میں پذیرائی ملی بلکہ دنیا بھر میں آپکی قابلیت کو عملاً تسلیم کیا گیا اور اسی عوض 1956 میں آپکو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو نیسکو )کہ جسکا مقصد تعلیم کے ذریعے مثبت معاشرتی و ثقافتی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنا تھا ۔ اس ادارے کا صدر منتخب کیا گیا ۔مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت و انکی جدوجہد پر اگر نظر رکھی جائے تو یہ کہنا قطعاً غلط نہیں کہ وہ ایک ایسے اسکالر و دانشور تھے کہ جنہوں نے نہ صرف اپنے عقیدے پہ نکتہ چینی کرنے والے لوگوں کو سائنسی و فلسفیانہ دلائل دیتے لا جواب کر دینے کی سکت تھی بلکہ وہ ایسے سیاسی مفکر بھی تھے کہ جنہیں اپنے حاصل کر دہ بیش قیمتی علم کے تحت مستقبل میں رونما ہونے والے حالات کا قبل از ادراک ہوتا ۔ پاکستان کے قیام و ہندوستان کی آزادی کے دوران اُن کے مختلف مقالموں ، انٹرویوز و تقاریر کا اگر مطالعہ کرتے آج پاکستان کا بحیثیت ایک اسلامی ریاست جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ مولانا کا وہ اندیشہ کہ جسکے تحت پاکستان کا قیام کفر کی سازش تھی اپنی قلعی کھولتے ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے ۔ اُنہوں نے اپریل 1946 یعنی آج سے کوئی 66سال پہلے لاہور کے ایک میگزین ’’مضبوط چٹان ‘‘ کے صحافی سوریش کشمیری کو انٹرویو دیتے پاکستان کے متعلق اپنے جن خدشات کا اظہار کیا وہ آج مکمل طور سے صادق دکھائی دیتی ہیں کہ جس میں اُنہوں نے کوئی آٹھ نکاتوں پر بحث کی کہ جنکا خلاصہ کچھ یوں ہے ۔
-1 نا اہل سیاسی رہنماؤں کے باعث پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو فوجی آمریت سے سہارا دیا جائے گا کہ جیسا بیشتر مسلمان ممالک میں ہے ۔
-2 غیر ملکی یا بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے یہ ملک کبھی با وقار ہوتے اٹھ کھڑا نہ ہو پائے گا ۔
-3 ہمسایوں سے دوستانہ تعلقات نہ ہونے کے باعث متوقع جنگوں کا خطرہ ہمیشہ رہے گا ۔
-4 داخلی طور پر عدم اطمینان کیساتھ ساتھ علاقائی طور پر بھی تضادات پروان چڑھتے رہیں گے ۔
-5پاکستان کے نو دو لتیے صنعتکار قومی دولت کو لوٹنے میں ذرا بھی نہ ہچکچائیں گے۔-6 نو دولتیوں کی ایسی لوٹ مار و غریبوں کے حد درجے استحصال کے بعد اس ملک میں طبقاتی جنگ کے خطرے کو بھی نہیں ٹالا جا سکتا ۔
-7 معاشرے میں پائے جانے والی اس طرز کی کشیدگی و عدم اطمینان کو جھیلتے یہاں کے نوجوان نہ صرف نظریہ پاکستان سے مایوس ہونگے بلکہ اس مایوسی کے باعث و ہ مذہب سے بھی دوری اختیار کرینگے جو یقینی طور پر عالم اسلام کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا ۔
-8 نا اہل سیاسی رہنماؤں کی حتمی نا کامی کے بعد طویل آمریت اور پھر قرضوں کا بوجھ ، نو دولتیوں کی لوٹ کھسوٹ ، اندرونی و بیرونی انتشار میں شدت کہ جسکے سبب محب الوطنی کے جذبے میں کمی کے بعد بین الاقوامی قوتوں کیلئے یہ نہایت سہل رہے گا کہ وہ سازشوں کے ذریعے پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے چلائیں۔
یقینی طور سے بیان کردہ ان آٹھ نکاتوں میں کوئی ایک بھی ایسا نکتہ نہیں کہ جس سے انکار کیا جا سکتا ہو لہٰذا یہ بات قابل افسوس ہے کہ آج بھی اسلام کے نام سے خود کو منسوب کرتے پاکستانی علما تو درکنار ہمارے بلوچ عالم بھی پاکستان کے وجود و اُس کے دفاع کی بات کرتے نازاں ہوتے احمقانہ طور پر اس بلوچ و اسلام مخالف ریاست کے معمار و محافظ ہوتے اسلام زندہ باد کے ہی نعرے لگاتے ہیں جبکہ اُنہیں مولانا آزاد جیسے حقیقی عالم دین کے نقش قدم پر چلتے اسلام کی خدمت کرنی چاہیے اور خصوصاً ان وقتوں میں کہ جب اس ریاست نے خصوصی طور پر اُمت کی اُس قوم کو با قاعدہ کچلنے کیلئے اپنی تمام طاقت صرف کر دی کہ جس قوم کے ثقافتی اقدار و روایات اُمت کے دیگر اقوام کے ثقافتی اقدار سے زیادہ اسلامی تعلیمات کے مشاہبہ ہیں ۔ بلوچ علماؤں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ہمارے ثقافتی اقدار جو بلا شبہ ہمارے مذہبی عقیدے پر پورا اترتے ہیں ، اسلام سے زیادہ مشاہبہ ہونے کے باعث خدا و ند کریم کی نعمت ہیں جو حملہ آور ہوئے کسی بھی قومی ثقافت کی یلغار سے تباہی کے سبب فنا ہو سکتی ہیں لہٰذا اُس کا تحفظ محض قومی نہیں بلکہ ایک مذہبی فریضہ بھی ہے جسے پاکستانی خفیہ اداروں کی پیدا کردہ ان رہزنوں و نام نہاد عالموں کی باتوں میں آتے فراموش نہیں کیا جا سکتا جو دین کا لبادہ اوڑھےکردہ ان رہزنوں و نام نہاد عالموں کی باتوں میں آتے فراموش نہیں کیا جا سکتا جو دین کا لبادہ اوڑھے پاکستانی خفیہ اداروں کی بیان کر دہ تاکیدوں کو اسلامی تعلیمات سے منسوب کرنے کا گناہ کرتے ہوں ۔ اس زمرے میں ہمیں اپنی قومی جدوجہد کو جہاد کے طور سے سمجھتے ، مزید طاقت بخشتے اُس پاک ریاست ( آزاد بلوچستان ) کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا کہ جہاں قبضہ گیریت و قوموں کو محکوم کرتے اُنکا استحصال کرنے کی شیطانی خصلتوں کے بنا بھی اسلام کا جھنڈا بلند کیا جا سکتا ہو ۔
اس ضمن میں ہمیں پاکستانی خفیہ اداروں کے پیدا کردہ بہروپیوں و حقیقی علماء اسلامی کی پہچان کرنا ہو گی جو یقینی طور پر مولانا آزاد جیسی مثالی شخصیت سے موازنے پر کی جا سکتی ہے ۔ مثلاً کچھ دیر کو اگر ہم سوچیں کہ اک ایسا انسان جو محض 12 سال کی عمر میں علم کی یہ پیاس لئے خود کو محنت کی بھٹی میں تاپتا ہو کہ اُسے غزالی کی سوانح عمری لکھنی ہے جو فقط 14 سال کی عمر میں ہی ہندوستان کے نہایت قابل تعریف ادبی میگزین میں با قاعدہ سے آرٹیکل لکھتا ہو کہ جنہیں پڑھتے مولانا شبلی نعمانی جیسی شخصیت کہ جنہیں دنیا شمس العلماء یعنی ’’علم کا سورج و روشنی ‘‘ کہے ، وہ بھی متاثر ہو ں ،ایسا انسان جو 16 سال کی عمر میں اپنی علمی جہت کا ایک جز پورا کرتے کسی قابل معلم کی طرح دیگر طلبہ کو اسلام ، فلسفہ ، ریاضی و منطق پڑھاتا ہو ، ال ہلال جیسے اخبار کا خالق و قلم کار کہ جسے اپنے صحافتی معیار کی بدولت ایسی شہرت ملے کہ انگریز سرکار کی سیٹی غائب ہو اور جسکے متوقع اثرات کو دیکھتے محض 5 مہینوں کے اندر ہی ممنوعہ قرار دیا جائے ، ایسا انسان جو اپنی سیاسی جدوجہد میں زندان میں قید ہو مگر پھر بھی خدمت اسلام و علم کی چادر تھامے رہتے زندان میں قید رہنے کے با وجود بھی قرآن کا اردو ترجمہ بمعہ تفسیر نامی اپنی کتاب کی پہلی جلد لکھتے اُسے مکمل کر دے ۔ ایسا فلسفی کہ جسکی فلسفیانہ احکایتوں پر گاندھی جیسی بڑی شخصیت اُسے )شہنشاہِ علم ( کہتے اُن کا موازنہ فیشا غورث ، ارسطو و افلاطون کے پائے کے دانشوروں سے کرتے ہوں ، سیاسی جدوجہد میں آپکی دیدہ دلیری دیکھتے خود نہرو آپکو ’’میرِ کارواں ‘‘ کہتے پکاریں اور آزادی کے بعد وزیر اعظم بنتے آپکو اپنی کابینہ میں اپنے بعد اولین درجہ دیں اور ساتھ میں قومی پالیسی بناتے آپکی خاص صلح و رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دیں ، ایسا انسان جو اسلامی تعلیمات کے تحت کثیرالقومی اسلام یعنی (اُمہؔ ) کے قائل ہوتے ہوئے بھی اقوام کے وجود کو خدا تعالیٰ کی رضا کہتا مختلف اقوام کی قومی آزادی کو تسلیم کرتے خود اُن سے قربت پانے و اُنکی قومی آزادی میں حائل رکاوٹوں کو بہتر سمجھنے کی خاطر خود افغانستان ، مصر ، شام ، ترکی و عراق کا دورہ کرتے مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھتے سامراج مخالف قومی جدوجہدوں کو عین اسلامی قرار دیتے خود بھی سامراج مخالف جدوجہد کا حصہ بنتا ہو ، یا وہ عالم کہ جسکے علم سے متاثر ہوئے اُسے آزاد ہندوستان میں وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا جائے اور وہ جدید علوم کے تحت ہندوستان میں صنعت و حرفت کی ترقی کیلئے سب سے پہلا ریسرچ ادارہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھتا ہو ، وہ عالم کی جسکی علمی قابلیت و خدمات کو تسلیم کرتے آج بھی ہندوستان کی ایک ارب 20 کروڑ عوام اُس عظیم عالم کی تاریخ ولادت کو (نیشنل ایجوکیشن ڈے )یعنی قومی تعلیمی دن کے طور پر مناتی ہو ، جسکی علمی قابلیت و جدوجہد کو دیکھتے اُسے ہندوستان کے سب سے معزز شہری ایوارڈ ’’بھارت رتنا‘‘ سے نوازا جائے ، وہ انسان دوست ، خدا ترس و عظیم مسلمان مفکر کہ جسکا اصل نام ہی ’’ابو کلام ‘‘ یعنی ’’بابائے گفت یا آقا ئے گفتار ‘‘ ہو …… کیا اُس کا موازنہ ایسے انسان سے کیا جا سکتا ہے جو خود کو عالم دین کہتا ، اسلام جیسے آفاقی مذہب کو محض طہارت ، غسل و استنجے کی بے معنی بحث تک محدود رکھے ؟ کہ جسکے مطابق دینی مسائل محض عمامے کی رنگت و پائنچوں کی اونچائی اور داڑھی کی لمبائی جیسے مسائل پر محیط ہو ؟ یا ایسا مولوی جو پاکستانی خفیہ اداروں کی منصوبہ بندی کے تحت پہلے سوویت روس کو امریکہ کے سامنے زیر کرنے کی جنگ کو جہاد کا نام دیتے امریکی اتحادی بنتا ڈالر کماتا ہو اور جب پاکستانی خفیہ اداروں کے مفادات امریکہ کے بر خلاف ہوں تو تمام مجاہدین کو زر خرید فوج (دہشتگر دوں)کی مانند استعمال کرتا اُنہیں امریکہ مخالف بنا دیتا ہو ایسا مولوی کے جس کے پاس کفار کا اتحادی و کفار کا دشمن ہونے کا جواز محض ذاتی مفاد ہو ! ایسا مولوی جو اُس ریاست کو اسلامی کہتا ہو کہ جس کا اسلام پہ چلنے کا عزم امریکی امداد سے مشروط ہو کہ جب سوویت روس کے خلاف جنگ کا دور دورہ تھا تو پوری ریاستی مشینری بشمول ٹی وی پہ مذہبی پروگراموں کا سلسلہ تھا اور آج چونکہ امداد ’’جہاد نہ کرنے ‘‘ سے مشروط کی گئی ہے لہٰذا سالہ سال ٹی ویپہ عشاء کی چلنے والی اذان کو بھی جگہ نہیں دی جا رہی اور اس کے بجائے جالب و فیض جیسے اُن شاعروں کے اشعار چلائے جا رہے ہیں کہ کل تک یہ ریاست جنہیں خود غدار پکارا کرتی ! ایسا نام نہاد عالم جو اُس فوج کو اسلامی کہتا پاک سمجھے کہ جس نے بنگالی مسلمانوں کا نہ صرف نا حق خون بہا یا بلکہ زنا بالجبر جیسے گناہ کا مرتکب ہو ا ! ایسا نام نہاد مولوی جو یہ تو جانتا ہو کہ اسلام میں غلام رکھنے کی سخت ممانعت ہے مگر وہ اپنے دہرے معیار کے تحت اُس ریاست کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیتا کہ جس ظالم ریاست نے اُمت کی پوری ایک قومی یعنی بلوچ کو عرصہ دراز سے غلام رکھا ہو ۔
در حقیقت یہ حقیقی علماء اسلام نہیں بلکہ وہ بہروپیے ہیں کہ جنہیں پاکستان اپنی قبضہ گیریت کو برقرار رکھنے کیلئے عام عوام میں بحیثیت علماء شہرت دلاتا ہے تاکہ عام عوام میں اُنکی مقبولیت کے بعد اُنہی سے اپنے اس غیر اسلامی عمل کا اسلامی جواز ( جو قطعاً اسلامی نہیں ) حاصل کیا جائے اور یہ بہروپیے بنا خوفِ خدا فقط ذاتی مفادات کے تحت لاکھوں انسانوں کے استحصال و اُن کی اُس شناخت کو فنا کر نے کیلئے اپنا مجرمانہ کردار ادا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ نے ہماری پہچان کیلئے ہمیں عنایت کی ۔ ان کے ایسے دہرے معیارات سے ہی اُن کی شخصیت کا احاطہ کیا جا سکتا ہے مثلاً ہم پوری پاکستانی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو کیا یہ سوال جائز نہیں کہ یہ ہندوستان کہ جہاں پاکستان سے بھی زائد مسلمان آباد ہیں کہ جہاں صرف دہلی جیسے ایک شہر میں ہمارے مساجد کی تعداد ہزاروں ہے کہ جن میں جامع مسجد سے مماثل ہماری شاندار عبادت گاہوں کی اگر فہرست تیار کی جائے تو اسلامی تعمیرات کا ایک خزانہ محض دہلی سے ہی بر آمد ہو سکتا ہے ۔ یہ وہاں تو جہاد کی بات کرتے ہیں مگر ہمارے دوسرے ہمسایے ممالک یعنی ایران کہ جس کے دارالخلافہ یعنی تہران میں بد قسمتی سے ایک بھی سنی مسجد نہیں ، جہاں ہمارے مساجد کی تعمیر پر غیر اعلانیہ پابندی ہے ، اُس کے بر خلاف ان میں جہاد کا کوئی جنون نہیں ! ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کو اپنے مذہبی فریضے کی مکمل آزادی ہونے کے با وجود بھی ان کے وہاں جہاد کرنے کا جذبہ ختم نہیں ہوتا مگر یہی پاکستانی اُس چین کو اپنا دوست کہتے نہیں تھکتے کہ جس ملک میں سرے سے کوئی بھی مذہب اپنانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہو ، کہ جہاں لا دینیت کو سرکاری سطح پر با ضابطہ(سرکاری طورپر)تسلیم کیا جاتا ہو کہ جہاں ایک ارب انسانوں کو جبری مذہب سے دو ر رکھا جاتا ہو کہ جہاں کُل آبادی کا بیشتر ہجم لا دین لوگوں پر مشتمل ہو کہ جہاں ایک ارب لوگوں میں محض 1%مسلمان ہوں ، وہاں نہ جہاد کی بات کی جاتی ہے اور نہ وہاں اسلام پھیلانے کا کوئی منصوبہ موضوع بنتا ہے جبکہ اس کے بر عکس ان کے ہر تبلیغی کارواں کا رخ اُ س بلوچ سر زمین کی جانب ہوتا ہے کہ جہاں کی 99% آبادی ان سے صدیوں پہلے اسلام قبول کر چکی ہے ۔ کیا یہ سوال اُن کی شخصیات کو غیر معتبر نہیں بنا دیتا کہ آج جب بلوچستان اپنی غلامی کے بر خلاف آزادی کی منزلیں طے کر رہا ہے تو اُسے مسلمان ہونے کے با وجود لگاتار اسلام کا درس دیتے قومی آزادی کی اپنی تحریک سے دستبردار کیا جا رہا ہے جبکہ اُن کا پیغام اگر واقعتا اسلامی ہے تو اُن کے تبلیغی کاموں کی اشد ضرورت تو دیگر ہمسایہ ممالک میں ہے !
ان حقائق بر تبصرہ کرنے کا میرا مقصد اپنے جہادی و تبلیغی بھائیوں کو چین یا ایران کے خلاف بھڑکانا نہیں اور نہ ہی میں ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کو نظر انداز کرنے کی تلقین کر رہا ہوں بلکہ ان سوالات کا مقصد خود اُنہیں یہ احساس دلانا ہے کہ جہاد یا تبلیغ جیسے مقدس فریضے کیلئے کسی ایسے انسان کو اپنا رہبر نہ چنا جائے کہ جسے ہمارے مذہبی احساسات کو استعمال کرتے پاکستانی خفیہ اداروں کے سامنے سر خرو ہونا ہو کیونکہ جہاد و تبلیغ کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے نا کہ کسی ریاست کی استحصالی و سیاسی پالیسیوں کی تکمیل کیلئے کسی قوم کو اسکی جدوجہد سے دستبردار کرنا اور اس مد میں تو ایسے سوالات کی ایک پوری فہرست ترتیب دی جا سکتی ہے کہ جس سے اُن پاکستان نواز عالموں کی شخصیات کو مذبذب کیا جا سکتا ہے جو پاکستانی خفیہ اداروں کے احکامات پر بلوچ قوم کو اسلام کے پاک نام پر اپنے تخلیق کردہ دہرے معیارات کے تحت گمراہ کرتے قومی جدوجہد سے دستبردار کرنے پہ اکساتے ہوں ، مگر چونکہ اس تحریر کا مقصد ذاتیات پر تبصرہ کرنے کے بجائے اسلام کی اُس شخصیت سے آپ قارئین کو آشنا کرنا ہے کہ جس کے متعلق ہمارے یہاں ایک لفظ بھی نہیں کہا جاتا اور بعض دفعہ تو اس حد تک نفرت ظاہر کی جاتی ہے کہ آپ اگر کسی فلمی قسم کے پاکستانی کو یہ بتا دیں کہ بھارتی ادا کار عامر خان کا شجرہ نسب مولانا آزاد سے ملتا ہے تو وہ بھی شائد عامر خان کی فلموں کا بائیکاٹ کرتیاُسے پاکستان دشمن تصور کرے ۔ اسی لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا موضوع ایک مذہبی شخصیت پر تبصرہ کرتے بھی کسی حد تک انقلابی ہی ہے جبکہ اس عالم کا یہ اقرار تو نہایت انقلابی ہے کہ اقوام کی قومی جدوجہد بھی عین اسلامی و شرعی ہے کیونکہ اُن کے مطابق لفظ ’’اُمہؔ ‘‘ قوم نہیں بلکہ مختلف مسلم اقوام کے اتحاد کا نام ہے ۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں خود کہتے ہی کہ :’’ قرآن کے مطابق لفظ قوم ایک مذہب کو ماننے والوں کیلئے نہیں بلکہ ایک ثقافت رکھنے والوں کیلئے بھی استعمال ہوا ہے جبکہ لفظ ’’ اُمہ ؔ ‘‘ ایک مذہب کی مختلف اقوام کو مخاطب کرنے کیلئے خداوند کریم نے چنا اور اسی طرح یہ ہر قوم کا حق ہے کہ خدا کی عنایت کردہ نعمت یعنی آزادی اُسے ہر حال میں ملے کیونکہ یہ وہ بیش قیمتی نعمت ہے کہ جسے فقط مذہب کی بنیاد پر نہیں بانٹا جا سکتا ۔ ‘‘
میرا یہ لکھا اُس انسان کے متعلق ہے جو اس آفاقی سچ کو تسلیم کرنے کی جرأت رکھتا تھا کہ قومی شناخت خدا کی عنایت کردہ وہ نعمت ہے کہ جسکی توسط خدا نے ہمیں مشاہبہ اطوار عنایت کرتے ایک ثقافت کے تحت یکجا کرتے اک جداگانہ پہچان دی اور خدا کی عطا کردہ اس پہچان کے تحفظ کی جنگ قطعاً مذہبی تعلیمات کے بر عکس نہیں ، اک ایسا انسان کہ جسے کسی ظالم فوج کا خوف نہیں ، جو اپنے ذاتی مفادات کو بر طرف کرتے خالص اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر حق کو حق و نا حق کو نا حق کہنے کی جرأت رکھتا تھا کہ جس نے سامراج دوستی و انگریزوں کی پالیسیوں پر نرم رویہ رکھنے والے اُن وقتوں کے معتبر شخصیت سر سید احمد خان جیسے اہم رہنما پر بلا خوف تنقید کرنے کی جرأت رکھی ، کہ جس نے گاندھی کے پیچھے آنکھیں موند کے چلنے کو بت پرستی جیسے کفر سے تشبیہ دیتے عدم تعاون تحریک (نان کارپوریٹ موومنٹ) میں گاندھی کے دستبردار ہوجانے پر بیچ کانگریس سیشن میں اُن پر تنقید کرنے کی ہمت دکھائی ، ایسا سچا مومن کہ جب اُسے پوچھا گیا کہ مولانا ، مسلم علماء تو زیادہ تر جناح کے ساتھ ہیں تو آپ کا جواب یہی تھا کہ ’’علماء تو اکبر اعظم کے ساتھ بھی تھے کہ جنہوں نے اُس کی خاطر اسلام کے نام پر ایک نیا کوئی مذہب تخلیق کر ڈالا اور ہمارے علماؤں کی اسی انفرادی نوعیت کی کمزوریوں کے سبب ہی عالم اسلام کی اس 1300 سالوں کی تاریخ میں ما سوائے چند علماؤں کے مسلمانوں کو آج اُن کے نام تک یاد نہیں ،مگر میں مسلمان ہوتے وہی کہونگا کہ جو حق ہے ، بے شک جو سچ ہے ۔ ‘‘،،،،،،،،،،،، ؟؟

مولانا عبدالکلام آزاد،،،،،،،، نوٹ
مولانا عبدالکلام آزاد کی شخصیت واُن کی سیاست کا ہر پہلو واضح کرنے کیلئے اس مضمون میں اُن کی ایک اہم تقریر کو شامل کیاجانا لازمی سمجھا گیا البتہ یہ تقریر بصری نوعیت میں حاصل ہوئی سالہاسال پرانی ریکارڈنگ کا حصہ تھی لہٰذا ٹرانسکپشن میں سطحی کمی بیشیوں کا پیشگی اعتراف کیاجانا مناسب سمجھا گیا۔
تقریر
’’دنیا میں وہی بچتا ہے کہ جس کی بنیادیں مضبوط ہوں ۔ میں آپ کو آئندہ نقشوں کے بننے سے نہیں روکتا لیکن آل انڈیا کانگریس کی صدارت کے ان دو برسوں میں جو کوششیں میں نے کیں اور مسلمان لیڈروں نے جس طرح اُنہیں ٹکرایا اُسکے بیان کرنے کا یہ موقع تو نہیں لیکن آپ کی یاد دہانی کیلئے مجھے پھر دہرانا پڑتا ہے کہ جب میں نے مسلم لیگ کی اس پاکستانی اسکیم کی تمام تر پہلوؤں پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پورے ہندوستان کیلئے اس اسکیم کے جو بھی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کیلئے بھی یہ تجویز سخت تباہ کن ثابت ہوگی ۔ اس سے اُن کی کوئی مشکل حل ہونے کے بجائے مزید مشکلیں پیدا ہوجائینگی ۔
اول تو پاکستان کا لفظ ہی میرے نزدیک اسلامی تصورات کے خلاف ہے ۔ پیغمبر اسلام ؐ کا ارشاد ہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے تمام روحِ زمین کو میرے لئے مسجد بنا دی ‘‘
میرے مطابق اس روحِ زمین کو یوں پاک اور نا پاک میں تقسیم کرنا ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔ دوسری یہ کہ یہ پاکستان کی اسکیم ایک طرح سے مسلمانوں کی شکست کی علامت ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 10 کروڑ کے اندر ہے اور وہ اپنی زبردست تعداد کے ساتھ ایسی مذہبی و معاشرتی صفات کے حامل ہیں کہ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگیوں و پالیسیوں اور نظم و نسق کے تمام معاملات پر فیصلہ کن اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ پاکستان کی اسکیم کے ذریعے ان کی یہ ساری قوت و صلاحیت تقسیم و ضائع ہو جائے گی اور میرے نزدیک یہ بد ترین بزدلی کا نشان ہے کہ میں اپنے میراثِ پدری سے دستبردار ہو کر ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر قناعت کر لوں ۔ میں اس مسئلے کے دوسرے تمام پہلوؤں کو نظر انداز کرکے تنہا مسلم مفاد کے نقطہ نگاہ سے بھی غور کرنے کیلئے تیار ہوں اور پاکستانی اسکیم کو کسی بھی طرح سے مسلمانوں کیلئے مفید ثابت کر دیا جائے تو میں اسے قبول کر لوں گا اورد وسرے سے اسے منوانے پر اپنا پورا زور صرف کر ڈالوں گا ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم سے مسلمانوں کی اجتماع و ملکی مفاد کو زرا بھی فائد ہ نہ ہوگا اور نہ اُن کا کوئی اندیشہ دور ہو سکے گا ۔ ہاں جو تجویز اور فارمولہ میں نے تیار کیا تھا کہ جسے کامرہ مشن اور کانگریس دونوں سے ہی منظور کروالینے میں مجھے کامیابی بھی حاصل ہوئی اور جسکی روح سے تمام صوبے مکمل طور پر خود مختار قرار دے دیئے گئے تھے کہ جس میں پاکستانی اسکیم کی وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اُن نقائص سے پاک ہیں جو اُن کی اسکیم میں پائے جاتے ہیں ۔ آپ اگر جذبات سے بالا تر ہو کر اسکے ممکنہ نتائج پر غور کریں تو ہندو اکثریتی علاقوں میں کروڑوں کی تعداد میں یہ مسلمان مگر چھوٹی چھوٹی اقلیتوں کی صورت میں پورے ملک میں بکھر کر رہ گئے اور آج کے مقابلے میں آنے والے کل میں اور بھی زیادہ کمزور ہو جائیں گے ۔ جہاں اُن کے گھر بار ، بد دو باش ایک ہزار سال سے چلی آ رہی ہے اور جہاں اُنہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے مشہور و بڑے بڑے مراکز تعمیر کئے ، ہندو اکثریتی علاقوں میں بسنے والے یہ مسلمان ایک دن اچانک صبح آنکھ کھولتے ہی اپنے آپ کو اپنے وطن میں پڑوسی اور اجنبی پائیں گے ۔ صنعتی ، تعلیمی و معاشی لحاظسے پسماندہ ہونگے اور ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر ہونگے جو خالص ہندو راج بنے گی ۔ پاکستان میں اگر خواہ مکمل مسلم اکثریتی حکومت ہی قائم کیوں نہ ہو جائے اس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہر گز حل نہیں ہو سکے گا ۔ یہ دو ریاستیں ایک دوسرے کے مد مقابل ایک دوسرے کی اقلیتوں کا مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتی ۔ اس سے صرف یرغمال و انتقام کا راستہ کھلے گا ۔
میرے بھائیوں آپکو یاد ہو گا کہ وسط جون 1940 ء میں کانگریس کی صدارت سنبھالنے کے بعد جب میں نے ہندو مسلم اختلاف کے تصفیے پر بحیثیت صدر کانگریس ، مسٹر محمد علی جناح (صدر مسلم لیگ ) کو ایک تجویز بھیجی تھی کہ ہندوستان کے تمام صوبوں اور مرکز میں کسی ایک پارٹی کی وزارت کے بجائے کانگریس و مسلم لیگ پر مشتمل مخلوط وزارتیں بنائی جائیں ، لیکن مسٹر جناح نے میری تجویز یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ’’تم کو کانگریس شنوائی کی طرح کانگریس کا صدر بنا یا ہے ، اس لئے میں تم سے کسی طرح کی گفتگو نہیں کرنا چاہتا ہوں ‘‘ ۔ اور یوں برابر کی سطح پر ہندو مسلم تصفیے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا ۔ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی پہلی حکومت جو 14 ارکان پر مشتمل ہوتی اور جس میں 7 مسلمان نمائندے ہوتے اور 7 غیر مسلم نمائندے کہ جن میں ہندو صرف 2 ہوتے ، اسلام و مسلمانوں کے کون سے اہم مفاد کے پیش نظر مسٹر جناح کیلئے قابل قبول نہیں تھے ؟ کیا اس طرح مسلمانوں کو ہندوستان کی پہلی حکومت میں ایک معقول حصہ نہیں مل رہا تھا ؟
میرے بھائیوں میں آپ کو اس بات کی روشنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ جب لارڈ ول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے آخری وائس رائے مقرر ہو کر آئے اور اُنہوں نے دھیرے دھیرے سردار پٹیل ، جوہر لال نہرو و گاندھی وغیرہ جیسے کانگریسی رہنماؤں کو تقسیم کا نظریہ قبول کر لینے پر آمادہ کر لیا اور بالآخر 3 جون 1947 ء کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دینے کی تجویز کا اعلان کر دیا گیا ۔ میرے بھائیوں ، یہ اعلان دراصل نہ تو ہندوستان کے مفاد میں تھا اور نہ مسلمانوں کے مفاد میں ! اس سے صرف بر طانوی مفاد کی حفاظت مقصود تھی ، اس لئے کہ ہندوستان کی تقسیم اور مسلمان اکثریت کے صوبوں کی الگریاست قائم کر دینے سے بر طانیہ کو بر صغیر میں اپنے پاؤں ٹکانے کا موقع حاصل ہو جاتا تھا ۔ ایک ایسی ریاست جس میں مسلم لیگ کے نام سے بر طانیہ کے پسندیدہ افراد بر سرے اقتدار آ جائینگے مسقل طور پر بر طانیہ کے زیر اثر رکھی جا سکتی تھی اور اس کا اثر ہندوستان کے رویے پر بھی پڑنا لازم ہو گا ،ہندوستان جب یہ دیکھے گا کہ پاکستان پر انگریزوں کا اثر ہے تو وہ اپنے یہاں بھی انگریزوں کے مفاد کا لحاظ رکھے گا ۔ آخر کار 14 اگست 1947 ء میں ہندوستان تقسیم کر لیا گیا ۔ پاکستان و ہندوستان نامی دو آزاد ریاستیں وجود میں آئیں جو یکساں طور پر بر طانیہ کا من و یلت کی ممبر بننے پر راضی ہوگی اور پھر میرے بد ترین خدشات صحیح ثابت ہونے لگے ۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کا بد ترین دشمن بن کر قتل عام ، غارت گری اور لوٹ مار پر اتر آیا ۔ خون کی لکیروں کیساتھ دو ملکوں کی سرحدیں کھینچ جانے لگی اور افسوس یہ مسلمان تقسیم در تقسیم ہو کر رہ گئے ۔
لیکن اب کیا ہو سکتا ہے ، اگر چہ ہندوستان نے آزادی حاصل کرلی لیکن اسکا اتحاد باقی نہیں رہا ، پاکستان کے نام سے جو نئی ریاست وجود میں آئی ہے کہ جس میں بر طانیہ کے پسندیدہ افراد کا بر سرے اقتدار طبقہ وہ ہے جو بر طانوی حکومت کا پروردہ رہا ہے ۔ اس کے طرز عمل میں خدمتِ خلق و قربانی کا کبھی کوئی شائبہ نہیں رہا ہے اور صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے یہ لوگ پبلک کے کاموں میں شریک ہوتے رہے ہیں اور پاکستان کے قیام کا صرف ایک ہی نتیجہ ملا ہے کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی پوزیشن کمزور ہو کر رہ گئی ہے اور یہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان تو کمزور ہو ہی گئے ہیں ۔ یہ ہندوستان میں رہ جانے والے کروڑوں مسلمان جو ابد تک ہندوؤں کے ظلم اور انتقام کا شکار رہیں پاکستان میں بسنے والے مسلمان ان کی کوئی بھی مددنہ کرسکے گئے اور اسی طرح سے پاکستان میں بسنے والے مسلمان جس معاشرتی کمزوری و اقتصادی و سیاسی پسماندگی کا شکار رہیں گئے ، یہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان اُن کی کوئی بھی مدد نہ کر سکیں گے ۔ تو کیا یہ بات غور کرنے کی نہیں کہ تقسیم کی بنیاد ہی ہندو و مسلمان کے درمیان عداوت پہ رکھی گئی تھی تو پاکستان کے قیام سے یہ منافقت اک آہنی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کا حل اب اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے اور اسی طرح یہ دونوں ملک خوف وہراس کے تحتاپنے اپنے فوجی اخراجات بڑھاتے رہنے پر مجبور رہیں گے اور معاشی ترقی سے محروم ہوتے چلے جائیں گے ۔
میں آج اگر ملامت کروں تو کس کو کروں ! کیسے کروں اور کیونکر کروں ! اپنے بھائیوں کو ! اپنے عزیزوں کو ! کس دیوار سے سر ٹکراؤں !
آپ جانتے ہیں کہ مجھے کون سی چیز یہاں لے آئی ہے ؟ میرے لئے یہ شاہجان کی یادگار مسجد میں پہلا اجتماع نہیں ہے ، میں نے ایک زمانے میں بہت سی گرد پیش دیکھی تھی اور یہی آ کر خطاب کیا تھا ۔ جب تمہارے جسموں پر ایک میلے پن کی جگہ اسلام تھا اور تمہارے دلوں میں شک کے بجائے اعتماد تھا ۔ پھر آج ! تمہارے چہروں پہ مسکراہٹ اور دلوں کی دیوالی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار خوشی اور چند برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں ۔ تمہیں یاد ہے کہ جب میں نے تمہیں پکارا تو تم نے میری زبان کاٹ ڈالی ، میں نے قلم اُٹھا یا تو تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیئے ، میں نے چلنا چاہا تو تم نے میرے پاؤں کاٹ دیئے ، میں نے کروٹ لینی چاہی اور تم نے میری کمر توڑ دی ۔‘‘
تبصرہ
حدیث نبوی ؐ کی روشنی میں پاکستان کے وجود کو اسلامی تعلیمات کے منافی و حتیٰ کہ اسے مسلمانوں کے خلاف کفر کی ایک سازش قرار دیتے اسکے وجود کے بر خلاف معقول دلائل پیش کرنے والے عالم دین و بر صغیر میں مسلمانوں کے حقیقی رہنما مولانا عبدالکلام آزاد 11 نومبر 1888 ء میں مکہ شریف میں پیدا ہوئے ۔آپ کی والدہ ماجدہ کا سلسلۂ نسب عرب قوم سے تھا جبکہ آپ کے والد محترم ایک ایسے صوفی مولانا کی حیثیت سے جانے جاتے کہ جنکا شجرہ نسب صوفی خاندان کے اُن علماء سے تھا جو مذہبی اقدار کی سخت پاسداری کیلئے جانے جاتے ، بنیادی حوالوں سے آپ کے اجداد کا تعلق ہیرات (افغانستان) سے تھا جو سالوں پہلے انڈیا آئے۔ اُن وقتوں مغل بادشاہوں کا دور دورا ہوا کرتا تھا، آپ کے والد شیخ محمد خیرالدین جو ایک مذہبی اسکالر تھے، وہ مکہ ہجرت کرگئے جہاں انہوں نے مدینہکے ایک مشہور مذہبی اسکالر کی بیٹی سے شادی کی ۔ مکہ شریف میں ہی اس خاندان میں اُس عظیم ہستی کی ولادت ہوئی کہ جنہیں تاریخ مولانا آزاد کے نام سے یاد کرتی ہے ۔آپ کی پیدائش کے چند سال بعد آپ کا خاندان دوبارہ انڈیا (کلکتہ) تشریف لایا۔
مولانا عبدالکلام آزاد ایک ایسے آئیڈیل مذہبی شخصیت ہیں کہ جن کے سبب ہم مذہب اسلام کی اُن خوبیوں کو اُجاگر کر سکتے ہیں کہ جنہیں عالمی طاقتوں کے سیاسی مفادات و تضادات کے باعث اس خطے میں عموماً ماند رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ ایک ایسا مثالی کردار جو مذہب اسلام کی تعریف کیلئے ایک شناختی علامت کے طور پر دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کی اچھائیاں بیان کرتے بحیثیت اک قوی ثبوت و موضوع بن سکتا ہو ، آپ کی علمی قابلیت کا یہ احوال تھا کہ آپ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے ہر علمی مورچے میں شامل رہے ۔ آپ نے سیاسی شعور کی بیداری کیلئے نہ صرف مختلف رسالوں کے اجراء کو اپنی بدولت ممکن بنا یا بلکہ ہندوستان میں موجود متعدد زبانوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ایک بڑے ہجوم کو ایک منظم دستے میں بدلنے کیلئے اُن کی زبانوں کو شعوری طور سے سیکھا ۔ آپ کو پشتو ، ہندکو ، بنگالی ، اردو ، فارسی ، عربی ، ہندی و انگریزی پر کمال حاصل تھا ۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں موجود مختلف فرقوں کے مابین رواداری کا درس دینے کیلئے آپ نے اسلامی تعلیمات کے ہر فرقے کی مصلحتوں کو سمجھنے کی خاطر اُن کا بھر پور مطالعہ کیا ۔ آپ کو فقہ ، شریعت و تاریخ اسلام پر عبور ہونے کیساتھ ساتھ جدید علوم پر بھی دسترس حاصل تھی ۔ آپ در حقیقت اسلام کے اُن سچے عالموں میں سے تھے کہ جنہوں نے علم کو بنا تعصب دیکھتے اُسے حاصل کرنے والے کو سیرت نبویؐ پر چلنے والا مجاہد تصور کیا اور اس فرسودہ بحث کو درکنار کیا کہ جس کے تحت علم کو مختلف مدارج میں تقسیم کرتے اسلامی و غیر اسلامی میں تقسیم کیا جاتا ہو کیونکہ آپ کے مطابق ہم اُسے علم کہہ ہی نہیں سکتے کہ جسے غیر اسلامی کہا جا سکتا ہو یا جسے حاصل کرنے پر خدا کی ممانعت ہو ۔ آپ نے ریاضی ، جو میٹری ، الجبرا ، فلسفہ و تاریخ کیساتھ ساتھ دیگر سائنسی علوم کو خدا کی نعمت تصور کرتے نہ صرف اپنی شخصیت کو مزید نکھارا بلکہ اُن کی بدولت ہی آپ نے متعدد علمی رسالوں کے اجراء کو ممکن بنا یا اور اپنی متعدد تصانیف سے اہل علم کو بھیفیض یاب کیا ، جس میں بیشتر کا مقصد بر صغیر پر بر طانوی قبضے کے خلاف عام عوام کو سیاسی شعور دینا تھا ۔ آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بعض ایسے مقالمے بھی تحریر کئے کہ جنہیں اسلامی ادبی تحریروں کا ایک قیمتی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے ۔
مولانا آزاد ہندوستان کی سیاست میں وہ رہنما تصور کئے جاتے ہیں کہ جنہوں نے علمی مورچوں کے علاوہ عملاً بھی ہر سیاسی تحریک میں بھر پور متحرک رہتے اپنا اہم کردار ادا کیا ۔ آپ خلافت تحریک ، گاندھی کے( ستھیے گرھا )، 1919 ء کی (رولٹ ایکٹ )کے خلاف کہ جس میں انفرادی آزادی کے بعض پہلوؤں پر قدغن کی شقیں موجود تھی، جلیا والا باغ کے قتل عام کے خلاف اجتماعی تحریکوں و بر طانیہ سرکار سے عدم تعاون تحریک اور دیگر سول نا فرمانی کی تحریکوں میں صف اول کے دستوں میں کھڑے رہنما تھے ۔ آپ کی جرأ ت و سیاسی بالادگی کو دیکھتے 1923 ء میں آپکو کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا ، جس کے تحت آپ کو کانگریس کا سب سے کم عمر صدر ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ آپ نے انتھک محنت و اپنی قابلیت سے ہندوستانی قوم کو تعلیم و سماجی اصلاح کا وہ تصور پیش کیا کہ جس کی بنیاد پر ہی آپکو ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کا قلمدان سونپا گیا ۔ آپ نے بحیثیت وزیر تعلیم ہندوستان بھر میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکول میں داخلے کی نہ صرف با قاعدہ مہم کا آغاز کیا بلکہ تعلیم کی اہمیت کو اجا گر کرتے بالغ لوگوں کیلئے بھی تعلیم کے مواقع پیدا کئے ۔ آپ نے اپنے طے کر دہ قومی پروگرام کے تحت بڑی تیزی سے اسکولوں و لائبریریوں کے قیام کا آغاز کیا ۔ آپ نے قومی سیاست میں وزیر اعظم نہرو کی سوشلسٹ اقتصادی و صنعتی ماڈل کی بھر پور حمایت بھی انسانی خدمت کے اس جذبے کیساتھ کی کہ جس کے تحت نہ صرف ابتدائی تعلیم کی عالمی سطح کر بڑھایا جانا ممکن ہوا بلکہ اس کے تحت معاشرے کے ہر فرد خصوصاً عورتوں کو بھی کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے ۔ قرونِ وسطی کی دقیانوسی خیالات کو بر طرف کرتے اسلام میں موجود انسانی برابری کی اصل احساس کو فلسفہ اسلام کا اہم ستون قرار دیتے آپ نے عورتوں کیلئے با عزت معاشی مواقع پیدا کرتے نہ صرف غربت پر قابو پانے کا راستہ تلاشا بلکہ اُنہیں بہتر سہولیات فراہم کرتے اُن کا حقیقی وقار اُنہیں دینے میں بھی آپ کا کلیدی کردار قابلِ ستائشہے ۔ سماجی و معاشی دشواریوں کو دور کرتے معاشرے کو علم و خرت کے رجحانات کی طرف مائل کرنے میں مولانا صاحب کے کردار کو نہ صرف ہندوستانی معاشرے میں پذیرائی ملی بلکہ دنیا بھر میں آپکی قابلیت کو عملاً تسلیم کیا گیا اور اسی عوض 1956 میں آپکو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو نیسکو )کہ جسکا مقصد تعلیم کے ذریعے مثبت معاشرتی و ثقافتی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنا تھا ۔ اس ادارے کا صدر منتخب کیا گیا ۔مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت و انکی جدوجہد پر اگر نظر رکھی جائے تو یہ کہنا قطعاً غلط نہیں کہ وہ ایک ایسے اسکالر و دانشور تھے کہ جنہوں نے نہ صرف اپنے عقیدے پہ نکتہ چینی کرنے والے لوگوں کو سائنسی و فلسفیانہ دلائل دیتے لا جواب کر دینے کی سکت تھی بلکہ وہ ایسے سیاسی مفکر بھی تھے کہ جنہیں اپنے حاصل کر دہ بیش قیمتی علم کے تحت مستقبل میں رونما ہونے والے حالات کا قبل از ادراک ہوتا ۔ پاکستان کے قیام و ہندوستان کی آزادی کے دوران اُن کے مختلف مقالموں ، انٹرویوز و تقاریر کا اگر مطالعہ کرتے آج پاکستان کا بحیثیت ایک اسلامی ریاست جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ مولانا کا وہ اندیشہ کہ جسکے تحت پاکستان کا قیام کفر کی سازش تھی اپنی قلعی کھولتے ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے ۔ اُنہوں نے اپریل 1946 یعنی آج سے کوئی 66سال پہلے لاہور کے ایک میگزین ’’مضبوط چٹان ‘‘ کے صحافی سوریش کشمیری کو انٹرویو دیتے پاکستان کے متعلق اپنے جن خدشات کا اظہار کیا وہ آج مکمل طور سے صادق دکھائی دیتی ہیں کہ جس میں اُنہوں نے کوئی آٹھ نکاتوں پر بحث کی کہ جنکا خلاصہ کچھ یوں ہے ۔
-1 نا اہل سیاسی رہنماؤں کے باعث پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو فوجی آمریت سے سہارا دیا جائے گا کہ جیسا بیشتر مسلمان ممالک میں ہے ۔
-2 غیر ملکی یا بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے یہ ملک کبھی با وقار ہوتے اٹھ کھڑا نہ ہو پائے گا ۔
-3 ہمسایوں سے دوستانہ تعلقات نہ ہونے کے باعث متوقع جنگوں کا خطرہ ہمیشہ رہے گا ۔
-4 داخلی طور پر عدم اطمینان کیساتھ ساتھ علاقائی طور پر بھی تضادات پروان چڑھتے رہیں گے ۔
-5پاکستان کے نو دو لتیے صنعتکار قومی دولت کو لوٹنے میں ذرا بھی نہ ہچکچائیں گے۔-6 نو دولتیوں کی ایسی لوٹ مار و غریبوں کے حد درجے استحصال کے بعد اس ملک میں طبقاتی جنگ کے خطرے کو بھی نہیں ٹالا جا سکتا ۔
-7 معاشرے میں پائے جانے والی اس طرز کی کشیدگی و عدم اطمینان کو جھیلتے یہاں کے نوجوان نہ صرف نظریہ پاکستان سے مایوس ہونگے بلکہ اس مایوسی کے باعث و ہ مذہب سے بھی دوری اختیار کرینگے جو یقینی طور پر عالم اسلام کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا ۔
-8 نا اہل سیاسی رہنماؤں کی حتمی نا کامی کے بعد طویل آمریت اور پھر قرضوں کا بوجھ ، نو دولتیوں کی لوٹ کھسوٹ ، اندرونی و بیرونی انتشار میں شدت کہ جسکے سبب محب الوطنی کے جذبے میں کمی کے بعد بین الاقوامی قوتوں کیلئے یہ نہایت سہل رہے گا کہ وہ سازشوں کے ذریعے پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے چلائیں۔
یقینی طور سے بیان کردہ ان آٹھ نکاتوں میں کوئی ایک بھی ایسا نکتہ نہیں کہ جس سے انکار کیا جا سکتا ہو لہٰذا یہ بات قابل افسوس ہے کہ آج بھی اسلام کے نام سے خود کو منسوب کرتے پاکستانی علما تو درکنار ہمارے بلوچ عالم بھی پاکستان کے وجود و اُس کے دفاع کی بات کرتے نازاں ہوتے احمقانہ طور پر اس بلوچ و اسلام مخالف ریاست کے معمار و محافظ ہوتے اسلام زندہ باد کے ہی نعرے لگاتے ہیں جبکہ اُنہیں مولانا آزاد جیسے حقیقی عالم دین کے نقش قدم پر چلتے اسلام کی خدمت کرنی چاہیے اور خصوصاً ان وقتوں میں کہ جب اس ریاست نے خصوصی طور پر اُمت کی اُس قوم کو با قاعدہ کچلنے کیلئے اپنی تمام طاقت صرف کر دی کہ جس قوم کے ثقافتی اقدار و روایات اُمت کے دیگر اقوام کے ثقافتی اقدار سے زیادہ اسلامی تعلیمات کے مشاہبہ ہیں ۔ بلوچ علماؤں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ہمارے ثقافتی اقدار جو بلا شبہ ہمارے مذہبی عقیدے پر پورا اترتے ہیں ، اسلام سے زیادہ مشاہبہ ہونے کے باعث خدا و ند کریم کی نعمت ہیں جو حملہ آور ہوئے کسی بھی قومی ثقافت کی یلغار سے تباہی کے سبب فنا ہو سکتی ہیں لہٰذا اُس کا تحفظ محض قومی نہیں بلکہ ایک مذہبی فریضہ بھی ہے جسے پاکستانی خفیہ اداروں کی پیدا کردہ ان رہزنوں و نام نہاد عالموں کی باتوں میں آتے فراموش نہیں کیا جا سکتا جو دین کا لبادہ اوڑھےکردہ ان رہزنوں و نام نہاد عالموں کی باتوں میں آتے فراموش نہیں کیا جا سکتا جو دین کا لبادہ اوڑھے پاکستانی خفیہ اداروں کی بیان کر دہ تاکیدوں کو اسلامی تعلیمات سے منسوب کرنے کا گناہ کرتے ہوں ۔ اس زمرے میں ہمیں اپنی قومی جدوجہد کو جہاد کے طور سے سمجھتے ، مزید طاقت بخشتے اُس پاک ریاست ( آزاد بلوچستان ) کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا کہ جہاں قبضہ گیریت و قوموں کو محکوم کرتے اُنکا استحصال کرنے کی شیطانی خصلتوں کے بنا بھی اسلام کا جھنڈا بلند کیا جا سکتا ہو ۔
اس ضمن میں ہمیں پاکستانی خفیہ اداروں کے پیدا کردہ بہروپیوں و حقیقی علماء اسلامی کی پہچان کرنا ہو گی جو یقینی طور پر مولانا آزاد جیسی مثالی شخصیت سے موازنے پر کی جا سکتی ہے ۔ مثلاً کچھ دیر کو اگر ہم سوچیں کہ اک ایسا انسان جو محض 12 سال کی عمر میں علم کی یہ پیاس لئے خود کو محنت کی بھٹی میں تاپتا ہو کہ اُسے غزالی کی سوانح عمری لکھنی ہے جو فقط 14 سال کی عمر میں ہی ہندوستان کے نہایت قابل تعریف ادبی میگزین میں با قاعدہ سے آرٹیکل لکھتا ہو کہ جنہیں پڑھتے مولانا شبلی نعمانی جیسی شخصیت کہ جنہیں دنیا شمس العلماء یعنی ’’علم کا سورج و روشنی ‘‘ کہے ، وہ بھی متاثر ہو ں ،ایسا انسان جو 16 سال کی عمر میں اپنی علمی جہت کا ایک جز پورا کرتے کسی قابل معلم کی طرح دیگر طلبہ کو اسلام ، فلسفہ ، ریاضی و منطق پڑھاتا ہو ، ال ہلال جیسے اخبار کا خالق و قلم کار کہ جسے اپنے صحافتی معیار کی بدولت ایسی شہرت ملے کہ انگریز سرکار کی سیٹی غائب ہو اور جسکے متوقع اثرات کو دیکھتے محض 5 مہینوں کے اندر ہی ممنوعہ قرار دیا جائے ، ایسا انسان جو اپنی سیاسی جدوجہد میں زندان میں قید ہو مگر پھر بھی خدمت اسلام و علم کی چادر تھامے رہتے زندان میں قید رہنے کے با وجود بھی قرآن کا اردو ترجمہ بمعہ تفسیر نامی اپنی کتاب کی پہلی جلد لکھتے اُسے مکمل کر دے ۔ ایسا فلسفی کہ جسکی فلسفیانہ احکایتوں پر گاندھی جیسی بڑی شخصیت اُسے )شہنشاہِ علم ( کہتے اُن کا موازنہ فیشا غورث ، ارسطو و افلاطون کے پائے کے دانشوروں سے کرتے ہوں ، سیاسی جدوجہد میں آپکی دیدہ دلیری دیکھتے خود نہرو آپکو ’’میرِ کارواں ‘‘ کہتے پکاریں اور آزادی کے بعد وزیر اعظم بنتے آپکو اپنی کابینہ میں اپنے بعد اولین درجہ دیں اور ساتھ میں قومی پالیسی بناتے آپکی خاص صلح و رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دیں ، ایسا انسان جو اسلامی تعلیمات کے تحت کثیرالقومی اسلام یعنی (اُمہؔ ) کے قائل ہوتے ہوئے بھی اقوام کے وجود کو خدا تعالیٰ کی رضا کہتا مختلف اقوام کی قومی آزادی کو تسلیم کرتے خود اُن سے قربت پانے و اُنکی قومی آزادی میں حائل رکاوٹوں کو بہتر سمجھنے کی خاطر خود افغانستان ، مصر ، شام ، ترکی و عراق کا دورہ کرتے مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھتے سامراج مخالف قومی جدوجہدوں کو عین اسلامی قرار دیتے خود بھی سامراج مخالف جدوجہد کا حصہ بنتا ہو ، یا وہ عالم کہ جسکے علم سے متاثر ہوئے اُسے آزاد ہندوستان میں وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا جائے اور وہ جدید علوم کے تحت ہندوستان میں صنعت و حرفت کی ترقی کیلئے سب سے پہلا ریسرچ ادارہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھتا ہو ، وہ عالم کی جسکی علمی قابلیت و خدمات کو تسلیم کرتے آج بھی ہندوستان کی ایک ارب 20 کروڑ عوام اُس عظیم عالم کی تاریخ ولادت کو (نیشنل ایجوکیشن ڈے )یعنی قومی تعلیمی دن کے طور پر مناتی ہو ، جسکی علمی قابلیت و جدوجہد کو دیکھتے اُسے ہندوستان کے سب سے معزز شہری ایوارڈ ’’بھارت رتنا‘‘ سے نوازا جائے ، وہ انسان دوست ، خدا ترس و عظیم مسلمان مفکر کہ جسکا اصل نام ہی ’’ابو کلام ‘‘ یعنی ’’بابائے گفت یا آقا ئے گفتار ‘‘ ہو …… کیا اُس کا موازنہ ایسے انسان سے کیا جا سکتا ہے جو خود کو عالم دین کہتا ، اسلام جیسے آفاقی مذہب کو محض طہارت ، غسل و استنجے کی بے معنی بحث تک محدود رکھے ؟ کہ جسکے مطابق دینی مسائل محض عمامے کی رنگت و پائنچوں کی اونچائی اور داڑھی کی لمبائی جیسے مسائل پر محیط ہو ؟ یا ایسا مولوی جو پاکستانی خفیہ اداروں کی منصوبہ بندی کے تحت پہلے سوویت روس کو امریکہ کے سامنے زیر کرنے کی جنگ کو جہاد کا نام دیتے امریکی اتحادی بنتا ڈالر کماتا ہو اور جب پاکستانی خفیہ اداروں کے مفادات امریکہ کے بر خلاف ہوں تو تمام مجاہدین کو زر خرید فوج (دہشتگر دوں)کی مانند استعمال کرتا اُنہیں امریکہ مخالف بنا دیتا ہو ایسا مولوی کے جس کے پاس کفار کا اتحادی و کفار کا دشمن ہونے کا جواز محض ذاتی مفاد ہو ! ایسا مولوی جو اُس ریاست کو اسلامی کہتا ہو کہ جس کا اسلام پہ چلنے کا عزم امریکی امداد سے مشروط ہو کہ جب سوویت روس کے خلاف جنگ کا دور دورہ تھا تو پوری ریاستی مشینری بشمول ٹی وی پہ مذہبی پروگراموں کا سلسلہ تھا اور آج چونکہ امداد ’’جہاد نہ کرنے ‘‘ سے مشروط کی گئی ہے لہٰذا سالہ سال ٹی ویپہ عشاء کی چلنے والی اذان کو بھی جگہ نہیں دی جا رہی اور اس کے بجائے جالب و فیض جیسے اُن شاعروں کے اشعار چلائے جا رہے ہیں کہ کل تک یہ ریاست جنہیں خود غدار پکارا کرتی ! ایسا نام نہاد عالم جو اُس فوج کو اسلامی کہتا پاک سمجھے کہ جس نے بنگالی مسلمانوں کا نہ صرف نا حق خون بہا یا بلکہ زنا بالجبر جیسے گناہ کا مرتکب ہو ا ! ایسا نام نہاد مولوی جو یہ تو جانتا ہو کہ اسلام میں غلام رکھنے کی سخت ممانعت ہے مگر وہ اپنے دہرے معیار کے تحت اُس ریاست کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیتا کہ جس ظالم ریاست نے اُمت کی پوری ایک قومی یعنی بلوچ کو عرصہ دراز سے غلام رکھا ہو ۔
در حقیقت یہ حقیقی علماء اسلام نہیں بلکہ وہ بہروپیے ہیں کہ جنہیں پاکستان اپنی قبضہ گیریت کو برقرار رکھنے کیلئے عام عوام میں بحیثیت علماء شہرت دلاتا ہے تاکہ عام عوام میں اُنکی مقبولیت کے بعد اُنہی سے اپنے اس غیر اسلامی عمل کا اسلامی جواز ( جو قطعاً اسلامی نہیں ) حاصل کیا جائے اور یہ بہروپیے بنا خوفِ خدا فقط ذاتی مفادات کے تحت لاکھوں انسانوں کے استحصال و اُن کی اُس شناخت کو فنا کر نے کیلئے اپنا مجرمانہ کردار ادا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ نے ہماری پہچان کیلئے ہمیں عنایت کی ۔ ان کے ایسے دہرے معیارات سے ہی اُن کی شخصیت کا احاطہ کیا جا سکتا ہے مثلاً ہم پوری پاکستانی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو کیا یہ سوال جائز نہیں کہ یہ ہندوستان کہ جہاں پاکستان سے بھی زائد مسلمان آباد ہیں کہ جہاں صرف دہلی جیسے ایک شہر میں ہمارے مساجد کی تعداد ہزاروں ہے کہ جن میں جامع مسجد سے مماثل ہماری شاندار عبادت گاہوں کی اگر فہرست تیار کی جائے تو اسلامی تعمیرات کا ایک خزانہ محض دہلی سے ہی بر آمد ہو سکتا ہے ۔ یہ وہاں تو جہاد کی بات کرتے ہیں مگر ہمارے دوسرے ہمسایے ممالک یعنی ایران کہ جس کے دارالخلافہ یعنی تہران میں بد قسمتی سے ایک بھی سنی مسجد نہیں ، جہاں ہمارے مساجد کی تعمیر پر غیر اعلانیہ پابندی ہے ، اُس کے بر خلاف ان میں جہاد کا کوئی جنون نہیں ! ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کو اپنے مذہبی فریضے کی مکمل آزادی ہونے کے با وجود بھی ان کے وہاں جہاد کرنے کا جذبہ ختم نہیں ہوتا مگر یہی پاکستانی اُس چین کو اپنا دوست کہتے نہیں تھکتے کہ جس ملک میں سرے سے کوئی بھی مذہب اپنانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہو ، کہ جہاں لا دینیت کو سرکاری سطح پر با ضابطہ(سرکاری طورپر)تسلیم کیا جاتا ہو کہ جہاں ایک ارب انسانوں کو جبری مذہب سے دو ر رکھا جاتا ہو کہ جہاں کُل آبادی کا بیشتر ہجم لا دین لوگوں پر مشتمل ہو کہ جہاں ایک ارب لوگوں میں محض 1%مسلمان ہوں ، وہاں نہ جہاد کی بات کی جاتی ہے اور نہ وہاں اسلام پھیلانے کا کوئی منصوبہ موضوع بنتا ہے جبکہ اس کے بر عکس ان کے ہر تبلیغی کارواں کا رخ اُ س بلوچ سر زمین کی جانب ہوتا ہے کہ جہاں کی 99% آبادی ان سے صدیوں پہلے اسلام قبول کر چکی ہے ۔ کیا یہ سوال اُن کی شخصیات کو غیر معتبر نہیں بنا دیتا کہ آج جب بلوچستان اپنی غلامی کے بر خلاف آزادی کی منزلیں طے کر رہا ہے تو اُسے مسلمان ہونے کے با وجود لگاتار اسلام کا درس دیتے قومی آزادی کی اپنی تحریک سے دستبردار کیا جا رہا ہے جبکہ اُن کا پیغام اگر واقعتا اسلامی ہے تو اُن کے تبلیغی کاموں کی اشد ضرورت تو دیگر ہمسایہ ممالک میں ہے !
ان حقائق بر تبصرہ کرنے کا میرا مقصد اپنے جہادی و تبلیغی بھائیوں کو چین یا ایران کے خلاف بھڑکانا نہیں اور نہ ہی میں ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کو نظر انداز کرنے کی تلقین کر رہا ہوں بلکہ ان سوالات کا مقصد خود اُنہیں یہ احساس دلانا ہے کہ جہاد یا تبلیغ جیسے مقدس فریضے کیلئے کسی ایسے انسان کو اپنا رہبر نہ چنا جائے کہ جسے ہمارے مذہبی احساسات کو استعمال کرتے پاکستانی خفیہ اداروں کے سامنے سر خرو ہونا ہو کیونکہ جہاد و تبلیغ کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے نا کہ کسی ریاست کی استحصالی و سیاسی پالیسیوں کی تکمیل کیلئے کسی قوم کو اسکی جدوجہد سے دستبردار کرنا اور اس مد میں تو ایسے سوالات کی ایک پوری فہرست ترتیب دی جا سکتی ہے کہ جس سے اُن پاکستان نواز عالموں کی شخصیات کو مذبذب کیا جا سکتا ہے جو پاکستانی خفیہ اداروں کے احکامات پر بلوچ قوم کو اسلام کے پاک نام پر اپنے تخلیق کردہ دہرے معیارات کے تحت گمراہ کرتے قومی جدوجہد سے دستبردار کرنے پہ اکساتے ہوں ، مگر چونکہ اس تحریر کا مقصد ذاتیات پر تبصرہ کرنے کے بجائے اسلام کی اُس شخصیت سے آپ قارئین کو آشنا کرنا ہے کہ جس کے متعلق ہمارے یہاں ایک لفظ بھی نہیں کہا جاتا اور بعض دفعہ تو اس حد تک نفرت ظاہر کی جاتی ہے کہ آپ اگر کسی فلمی قسم کے پاکستانی کو یہ بتا دیں کہ بھارتی ادا کار عامر خان کا شجرہ نسب مولانا آزاد سے ملتا ہے تو وہ بھی شائد عامر خان کی فلموں کا بائیکاٹ کرتیاُسے پاکستان دشمن تصور کرے ۔ اسی لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا موضوع ایک مذہبی شخصیت پر تبصرہ کرتے بھی کسی حد تک انقلابی ہی ہے جبکہ اس عالم کا یہ اقرار تو نہایت انقلابی ہے کہ اقوام کی قومی جدوجہد بھی عین اسلامی و شرعی ہے کیونکہ اُن کے مطابق لفظ ’’اُمہؔ ‘‘ قوم نہیں بلکہ مختلف مسلم اقوام کے اتحاد کا نام ہے ۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں خود کہتے ہی کہ :’’ قرآن کے مطابق لفظ قوم ایک مذہب کو ماننے والوں کیلئے نہیں بلکہ ایک ثقافت رکھنے والوں کیلئے بھی استعمال ہوا ہے جبکہ لفظ ’’ اُمہ ؔ ‘‘ ایک مذہب کی مختلف اقوام کو مخاطب کرنے کیلئے خداوند کریم نے چنا اور اسی طرح یہ ہر قوم کا حق ہے کہ خدا کی عنایت کردہ نعمت یعنی آزادی اُسے ہر حال میں ملے کیونکہ یہ وہ بیش قیمتی نعمت ہے کہ جسے فقط مذہب کی بنیاد پر نہیں بانٹا جا سکتا ۔ ‘‘
میرا یہ لکھا اُس انسان کے متعلق ہے جو اس آفاقی سچ کو تسلیم کرنے کی جرأت رکھتا تھا کہ قومی شناخت خدا کی عنایت کردہ وہ نعمت ہے کہ جسکی توسط خدا نے ہمیں مشاہبہ اطوار عنایت کرتے ایک ثقافت کے تحت یکجا کرتے اک جداگانہ پہچان دی اور خدا کی عطا کردہ اس پہچان کے تحفظ کی جنگ قطعاً مذہبی تعلیمات کے بر عکس نہیں ، اک ایسا انسان کہ جسے کسی ظالم فوج کا خوف نہیں ، جو اپنے ذاتی مفادات کو بر طرف کرتے خالص اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر حق کو حق و نا حق کو نا حق کہنے کی جرأت رکھتا تھا کہ جس نے سامراج دوستی و انگریزوں کی پالیسیوں پر نرم رویہ رکھنے والے اُن وقتوں کے معتبر شخصیت سر سید احمد خان جیسے اہم رہنما پر بلا خوف تنقید کرنے کی جرأت رکھی ، کہ جس نے گاندھی کے پیچھے آنکھیں موند کے چلنے کو بت پرستی جیسے کفر سے تشبیہ دیتے عدم تعاون تحریک (نان کارپوریٹ موومنٹ) میں گاندھی کے دستبردار ہوجانے پر بیچ کانگریس سیشن میں اُن پر تنقید کرنے کی ہمت دکھائی ، ایسا سچا مومن کہ جب اُسے پوچھا گیا کہ مولانا ، مسلم علماء تو زیادہ تر جناح کے ساتھ ہیں تو آپ کا جواب یہی تھا کہ ’’علماء تو اکبر اعظم کے ساتھ بھی تھے کہ جنہوں نے اُس کی خاطر اسلام کے نام پر ایک نیا کوئی مذہب تخلیق کر ڈالا اور ہمارے علماؤں کی اسی انفرادی نوعیت کی کمزوریوں کے سبب ہی عالم اسلام کی اس 1300 سالوں کی تاریخ میں ما سوائے چند علماؤں کے مسلمانوں کو آج اُن کے نام تک یاد نہیں ،مگر میں مسلمان ہوتے وہی کہونگا کہ جو حق ہے ، بے شک جو سچ ہے ۔ ‘‘