Salal Baloch,Human Right violation, Freedom, sindh, Balochistan , BSO, BSO Azad, BNM, Abdul Jabbar

Sunday, June 16, 2019

جیل سےپشتون قوم کے نام خط

جیل سےپشتون قوم کے نام خط 
تحریر: محسن داوڑ 
میری ہم وطن پشتونوں اسلام علیکم 
امید ہے آپ سب بمعہ اہل و عیال خیریت سے ہونگے۔
میری طرف سے اور میرے ساتھ جیل میں قید زخمی وزیر علی وزیر کی طرف سے آپ سب کو گزشتہ عید مبارک ہو۔ بروقت عید مبارک پیش ناکرنے پر معذرت خواہ ہیں امید ہے آپ ہماری معذرت کو قبول فرمائینگے۔ 
میری قوم کے جوانو، بزرگو اور میری ماوں بہنو ! 
جیسے آپکو پتہ ہے خڑ کمر کی بربریت کے بعد مجھے اور علی وزیر کو گرفتار کرکے پشاور لایا گیا ہے۔ یہاں جیل سے چونکہ رابطے کا کوئی اور زریعہ نہیں تھا اسلیے سوچا آپ کے ساتھ ایک خط کے زریعے رابطہ کیا جائے حقیقت میں مجھے آپکی محبت اور خلوص یہاں جیل میں بہت یاد آتی ہے شاید ہی جیل میں کوئی اور چیز یاد آتی ہو لیکن آپ کے ساتھ ملنا، بیٹھنا قوم کی بہتری اور کامیابی کیلیے طویل بحث کرنا اور ایک دوسرے کے غم کو رونا بہت یاد آتا ہے۔ 
میرے پشتونوں! جیسے آپ اب تک یہ بخوبی جان چکے ہونگے کہ نارتھ وزیرستان خڑ کمر کے مقام پر پاکستانی فوج نے" وہ فوج جو ہمارے ملک کی فوج ہے جیسے ہم اپنی فوج کہتے آئے ہیں اور جو ہمارے ٹیکس سے اسلحہ اور تنخواہ لیتی یے" سرے عام نیھاتے عوام پر گولیاں چلائیں۔ جس کے سبب اب تک 13 بے گناہ پشتون شہید ہو چکے ہیں جبکے کئی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ دنیا میں ان چند واقعات میں سے ایک واقع ہے جب انسانوں کو اس قدر بے دردی سے مارا گیا ہو۔ ہم نے کربلہ کا سنا تھا یزید کے مظالم کا سنا تھا، ہم نے ہٹلر کے مظالم اور سٹالن کے مظالم کا سنا تھا ہم نے پشتون قوم پر انگریزوں کے مظام اور قیصہ خوانی بازار کے مظالم کا سنا تھا اور پڑھا تھا۔ ہم نے بنگال میں پاکستانی فوج کی بربریت کا سنا تو تھا لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا ہوا ہو گا لیکن دل کو پھر بھی تسلی دیتے رہے کہ کوئی اپنی عوام پر بھی گولیاں چلاتا ہے؟ لیکن جوں ہی بڑے ہوتے گئے دن بہ دن یہ شک یقین میں بدلتا گیا۔
یہ ظلم اور تشدد کی داستان 70 سال پرانی ہے جس کی ابتداء بابڑہ سے ہوئی جب پاکستان کو بنے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا اور پشتونوں کو 620 شہیدوں کا تحفہ نئے بنے اسلامی جمہوریہ پاکستان نے دیا ہماری ان ماوں بہینوں کو بھی گولیاں ماری گئی جو سروں پر قرآن لیکر گھروں سے نکلی اور ریاست پاکستان کے اداروں سے گولیاں بند کرنے کا کہہ رہی تھیں ۔ ان بچوں کو بھی گولیاں ماری گئیں جو وہاں اپنے زخمی باپ اور بھائی کو اٹھانے کیلیے آئے تھے اور جبر کی حد یہ کہ ان شہیدوں کے گھر والوں سے ان گولیوں کے بھی پیسے لیے گئے جن سے وہ شہید ہوئے۔ 
ہم کس کس ظلم و ستم کو بیاں کریں ؟ 
ریاست پاکستان میں تو پشتونوں نے ایک بھی دن سکون و امن سے نہیں گزارہ۔ ہم لیاقت باغ راولپنڈی کے ظلم کو یاد کریں؟ کوئیٹہ کے پشتونوں پر براستی گولیوں کو یاد کریں؟ ہم کراچی میں پشتونوں کے بہتے خون کو یاد کریں ؟ ہم خان شہید صمد خان کی لاش کو یاد کریں؟ ہم بشیر بلور و میاں افتخار حسین کے جواں سال بیٹے کی گولیوں سے چھلنی لاشوں کو یاد کریں؟ ہم بشیر بلور شہید کے لخت جگر ہارون بلور کی شہادت کو یاد کریں؟ ہم فاٹا کے بہتے خون کو یاد کریں؟ ہم گڈ اور بیڈ طالبان کے ہاتھوں مرتے پشتونوں کو یاد کریں؟ یہ ظلم و قرب کی 70 سال کی داستان ۔۔۔یہ ہر روز نئی غم و نئے قرب کی داستان۔۔۔ 70 سال ہر روز ہر گھڑی ایک نئے غم کا ایک نئے قرب کا پشتون قوم نے سامنا کیا۔ یہ درد و غم شاید ایک خط میں بیاں نہیں کر سکوں گا۔۔۔ میری پشتون قوم مجھے معاف کردیجئے میں 70 سال کی اس قرب و وحشت بھری داستاں کو اس خط میں لکھنے کے قابل نہیں ہوں۔ 
یہ جیل جس میں ہم پڑے ہیں یہ جیل ہمیں اپنی سی لگتی ہے اس جیل میں باچا خان بابا کی آواز آج تک گھونجتی ہے اس جیل میں ولی خان بابا کی آہٹ آج تک سنائی دیتی ہے اس جیل میں خان شہید صمد خان کی خوشبو آج تک محسوس ہوتی ہے۔ یہ وہی جیل ہے جس نے باچا خان بابا کی جوانی کو دیکھا ہے ولی خان بابا اور خان شہید کی شب و روز کو دیکھا ہے۔ کہنے کو تو ہم جیل میں ہیں لیکن کیا ہم پہلے آزاد تھے؟
جس قوم کی تاریخ قید ہو۔۔
جس قوم کی سیاست قید ہو۔۔
جس قوم کی زبان قید ہو۔۔۔
جس قوم کے وسائل پر غیروں کا قبضہ ہو۔۔
جو قوم بے اختیار و غلام ہو۔۔
جو قوم تقسیم در تقسیم ہو۔۔ 
جس قوم کا مستقبل قید میں ہو ۔۔
اس قوم کا کوئی فرد کیسے آزاد ہو سکتا ہے؟
آزاد ہم تب بھی نہیں تھے ہاں آج ہم تنگ چار دیواروں میں ہیں تب ہم تنگ چار اداروں میں تھے فوج،میڈیا، پارلیمنٹ، عدالتیں۔۔ 
نا میڈیا کو ہمارا درد دیکھائی دیا 
نا عدالتوں سے ہمارے لیے انصاف ہوتا دیکھائی دیا
نا پارلیمنٹ کو یہ اختیار کبھی حاصل ہوا کہ ہمارے لیے کچھ کہہ سکے 
فوج نے تو صرف ہماری زمین کو اپنا سمجھا 
میری پشتون قوم کا تو بچہ بچہ قید ہے میری قوم کا ہر دن قید ہے۔۔۔۔ 
میرے پشتونوں! ہمیں ان چار دیواروں میں آپ سے دور قید کردیا گیا ہے لیکن آپ ہماری فکر چھوڑ کر اس مشن کو آگے بڑھائیں جس مشن کیلیے وانا کے دس جوانوں نے اپنی جان قربان کی، جس مشن کیلیے ارمان لونی نے شہادت قبول کی، خڑ کمر کے غیور پشتونوں نے شہادت قبول کی اور جس کی وجہ سے عالمزیب پچھلے چھ مہنے سے جیل میں ہے۔ 
آپ وانا کے ان شہیدوں کی ماوں اور بہنوں کے سر پر ہاتھ رکھیں 
آپ وڑانگہ لونی کو تسلی دیں انکے گھر کا سہارا بنیں 
آپ شمالی وزیرستان کے شہیدوں کے گھر والوں کا سہارا بنیں۔
یہاں ہم پر جس طرز کا بھی تشدد ہو جس طرز کا بھی ظلم ہو آپ کو یہ یقین رہے ہم آپ کے مستقبل کیلیے ہر قسم کی تکلیفوں کیلیے تیار ہیں یہ امن اور حقوق کیلیے بہت ہی کم قیمت ہے اور ہم اس سے بڑھ کر بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ آپ نے اس تحریک کو جاری رکھنا ہے اپ نے پشتون قوم کے مستقبل کیلیے ہر قربانی کیلیے تیار رہینا ہے۔ 
آخر میں ان تمام پارلیمنٹرینز کا، انسانی حقوق کے اداروں کا، صحافیوں کا نہایت مشکور ہوں جو پشتون قوم اور ہمارے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ 
انسانی حقوق کے اداروں اور یونیٹڈ نیشن سے درخواست ہے کہ ہمارے حال پر اور ہم ہونے والے مظالم کا نوٹس لیں خڑ کمر واقعہ کی تحقیقات سے دہشت گردی کے خلاف لڑی گئی جنگ کی حقیقت دنیا بھر کے سامنے آجائے گی۔ 
میرے پشتونوں! میرے شمالی وزیرستان کو آپ کے حوالے کرتا ہوں اب شمالی وزیرستان کیلیے آواز اٹھانا آپکی زمہ داری ہے۔
میرے شمالی وزیرستان کی ماوں بہینوں میں آپ پر قربان
میرے شمالی وزیرستان کے بھائیو اور بزرگو میں آپ پر قربان۔۔ میرے شمالی وزیرستان میں معافی مانگتا ہوں مجھے ظالموں نے آپ سے دور کردیا ہے میں آپ کیلیے آپ کے ساتھ موجود نہیں ہوں۔ 
میرے پشتونوں! جیل سے آپ کا خادم آپ کو اتحاد و اتفاق اور منظم ہونے کا درس دیتا ہے۔ 
تحریک کے تمام ساتھیوں کو سلام! 
زندگی کا ہر پل پشتون قوم کے نام 
یہ جان یہ سانسیں پشتون قوم کے نام 
عدم تشدد کے ساتھ ہم یہ جنگ جاری رکھینگے انشاء اللہ ۔۔
وسلام 
آپ کا محسن داوڑ 
15 جون 2019 
پشاور جیل 
( میں اور علی وزیر انشاء اللہ آپ کے ساتھ خطوط کے زریعے مخاطب ہوتے رہینگے)

No comments:

Post a Comment